انڈونیشیا نے غیر ازدواجی جنسی تعلق قانوناً جرم قرار دے دیا

جکارتہ (ڈیلی اردو/ڈی پی اے/اے پی/اے ایف پی/رائٹرز) انڈونیشیا نے آج منگل کو جن متنازعہ فوجداری قوانین کو منظوری دے دی ان میں صدر کی توہین اور غیر ازدواجی جنسی تعلقات کو جرم قرار دیا گیا ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ نئے قوانین سے انڈونیشیا میں جمہوری آزادیوں پر ضرب لگی ہے۔

فوجداری قوانین میں ترمیم کے مخالفت کرنے والوں نے انڈونیشیا کے اراکین پارلیمان سے ان متنازعہ قوانین کی توثیق نہ کرنے کی اپیل کی تھی۔ ان قوانین کے تحت غیر ازدواجی جنسی تعلقات رکھنے نیز شادی کے بغیر ساتھ رہنے والے جوڑوں کو قید کی سزا دی جائے گی۔

تمام اہم سیاسی جماعتوں نے اس بل کی حمایت کی جس کے بعد پارلیمان نے قوانین میں ترمیم کو منظوری دے دی۔ حالانکہ دنیا کی سب سے بڑی مسلم آبادی والے ملک میں ناقدین کا کہنا ہے کہ ان قوانین سے جمہوری آزادیوں کو خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔

گوکہ پارلیمان نے آج نئے فوجداری قوانین کی توثیق کر دی تاہم ان کا اطلاق تین برس میں ہو گا۔

انڈونیشیا میں اس وقت زنا قانوناً جرم ہے تاہم قبل از شادی جنسی تعلق قائم کرنے پر پابندی نہیں۔ اس وقت جن قوانین پر عمل درآمد ہوتا ہے ان میں سے بیشتر کا تعلق نیدرلینڈز کے نوآبادیاتی قوانین سے ہے۔

قانون اور انسانی حقوق کے نائب وزیر ایڈورڈ عمر شریف نے نئے قوانین کی منظوری کے بعد کہا، “ہم 59 برسوں سے اس کا انتظار کر رہے تھے۔”

نئے قوانین کے تحت غیر ازدواجی جنسی تعلقات کے لیے ایک برس قید اور شادی کے بغیر ساتھ رہنے والوں کو چھ ماہ قید کی سزا ہو سکتی ہے۔ تاہم پولیس اس حوالے سے کسی شکایت کی تفتیش اسی وقت کرے گی جب خاندان کے کسی رکن کی جانب سے شکایت درج کرائی جائے گی۔

نیدرلینڈز سے آزادی حاصل کرنے کے بعد سے ہی انڈونیشیا میں فوجداری قوانین پر نظر ثانی کا معاملہ موضوع بحث رہا ہے۔

فوجداری قوانین پر نظر ثانی کرنے والے کمیشن کے سربراہ بمبانگ ووریانتو کا کہنا تھا، “پرانے قوانین ڈچ ثقافت کا حصہ تھے اور اب یہ قابل عمل نہیں رہ گئے ہیں۔”

نئے قوانین کا اطلاق انڈونیشی شہریوں اور غیر ملکیوں دونوں پر یکساں طور پر ہو گا۔

ریاست کی توہین، بدامنی پیدا کرنے اور فیک نیوز پھیلانے پر قید کی سزا

نئے قوانین میں صدر یا ریاستی اداروں کی توہین کرنے اور ریاستی آئیڈیالوجی کے برخلاف موقف کا اظہار کرنا بھی قابل سزا جرم ہو گا۔

نئے قانون میں صدر یا نائب صدر کے “وقار پر حملہ کرنے” والے کو زیادہ سے زیادہ تین برس تک قید کی سزا ہو سکتی ہے۔

حکومت کی توہین کرنے والے کو 18ماہ تک قید کی سزا ہو سکتی ہے جب کہ سماجی بدامنی پیدا کرنے کے جرم میں تین برس تک قید کی سزا دی جا سکتی ہے۔ ” فیک نیوز” پھیلانے کے جرم میں چھ برس تک قید کی سزا ہو سکتی ہے۔

پیر کے روز ملک کے مختلف شہروں میں سینکڑوں لوگوں نے مظاہرے کیے اور نئے قوانین کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا۔

حقوق انسانی گروپوں کا اعتراض

انڈونیشیا میں گوکہ غالب آبادی مسلمانوں کی ہے تاہم اس ملک میں پروٹیسٹنٹ اور کیتھولک مسیحی، ہندومت، بودھ مت اور کنفیوشس ازم کو بھی تسلیم کیا جاتا ہے۔

گوکہ مسلمانوں کی اکثریت اسلام کی جدید تشریحات پر عمل کرتی ہے تاہم حالیہ برسوں میں مذہبی قدامت پسندی میں بھی اضافہ ہوا ہے اور اس کا اثر ملکی سیاست پر بھی پڑا ہے۔

ناقدین کا کہنا ہے کہ نئے قوانین سے انڈونیشیا بنیاد پرستی کی طرف بڑھ سکتا ہے حالانکہ ملکی آئین کی جڑیں سیکولرازم میں موجود ہیں۔

نئے قوانین سے ملک میں ایل جی بی ٹی کیو کمیونٹی پر بھی اثر پڑنے کے خدشات ظاہر کیے جارہے ہیں کیونکہ انڈونیشیا میں ہم جنس شادیاں غیر قانونی ہیں۔ آچے صوبے کو چھوڑ کر ملک کے دیگر حصوں میں ہم جنس پرستی غیر قانونی نہیں ہے لیکن اسے بالعموم حرام سمجھا جاتا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں