پاکستان میں آج کوئی نو گو ایریا نہیں، ڈی جی آئی ایس پی آر احمد شریف چوہدری

راولپنڈی (ڈیلی اردو/بی بی سی) ایک صحافی نے فوج کے ترجمان سے پریس کانفرنس کے دوران سوال کیا کہ ’کہا جاتا ہے کہ کمان کی تبدیلی کے ساتھ احتساب بھی ہوتا ہے۔۔۔ تحریک انصاف کہتی ہے کہ جنرل باجوہ کا کورٹ مارشل ہونا چاہیے جبکہ پی ڈی ایم کہتی ہے کہ جنرل فیض کا کورٹ مارشل ہونا چاہیے۔۔۔ تو کیا واقعی ان دونوں جرنیلوں نے اپنے مینڈیٹ سے تجاوز کیا، جس پر ان کے خلاف محکمانہ کارروائی ہونی چاہیے؟‘

اس پر ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل احمد شریف چوہدری کہتے ہیں کہ فوج سے متعلق کسی بھی خبر کے لیے اپنی نظریں صرف آئی ایس پی آر کی پریس ریلیز پر رکھیں۔ وہی واحد ذریعہ ہیں۔

’آئی ایس پی آر کے کئی فیک اکاؤنٹ سوشل میڈیا پر متحرک ہیں، صرف مصدقہ اکاؤنٹ پر توجہ رکھیں۔ اس طرح آپ اضطرابی قسم کے سوال اور مفروضوں پر نہیں جائیں گے۔‘

میجر جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا کہ ’فوج کا اپنا مفصل نظام موجود ہے۔۔۔ اگر کوئی تنقید ہو تو اس پر کارروائی ہوتی ہے مگر یہ نظام حقائق اور ڈیو پراسس پر مبنی ہے۔ اس کا مقصد تمام فریقین کو انصاف فراہم کرنا ہے۔‘

’اس کا مقصد افواہوں کی بنیاد پر کارروائی نہیں۔‘

’فوج کی تعیناتی کا اختیار وفاقی حکومت کے پاس‘

الیکشن میں فوج کی تعیناتی کیا دہشتگردی کے خلاف جاری آپریشنز کی وجہ سے فی الحال ممکن نہیں، اس پر وہ کہتے ہیں کہ ہم نے اپنا تفصیلی مؤقف سپریم کورٹ اور الیکشن کمیشن کو بتایا ہے۔ ’آئین کے تحت افواج پاکستان کی تعیناتی کا اختیار وفاقی حکومت کے پاس ہے۔‘

’ابتدائی شواہد کے مطابق سوات دھماکہ دہشتگردی کا واقعہ نہیں تھا‘

سوات میں سی ٹی ڈی تھانے میں دھماکے سے متعلق سوال پر ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ آئی جی کے پی نے بریفنگ میں بتایا کہ سوات دھماکے کے شواہد سے پتا چلتا ہے کہ یہ دہشتگردی کا واقعہ نہیں مگر تفتیش کے بعد حقائق پتا چلیں گے۔ ’پہلی منزل پر مال خانے میں برآمد شدہ گولہ بارود رکھے گئے تھے۔ فوج نے امدادی سرگرمیوں میں حصہ لیا۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’وہاں بہت سے گولہ بارود کو ڈفیوز کرنا ضروری ہے جس کے لیے ٹیمیں موجود ہیں۔ انکوائری سے صورتحال واضح ہوگی۔‘

دریں اثنا ان کا کہنا تھا کہ ’چینی شہریوں کی سکیورٹی اولین ترجیح ہے۔ فوج کے لیے یہ ایک حساس معاملہ ہے۔ سی پیک کی سکیورٹی سے چینی حکام مطمئن ہیں۔‘

پنجاب حکومت کی جانب سے ہزاروں ایکڑ پر محیط زمین فوج کو دیے جانے سے متعلق سوال پر وہ کہتے ہیں کہ فوڈ سکیورٹی پاکستان کے لیے ایک چیلنج ہے۔ ’باقی ترقی یافتہ ملکوں میں بھی حکومتوں نے فوج کو زراعت کے شعبے میں بہتری کے لیے استعمال کیا ہے۔ افواج پاکستان کیا بہتری لا سکتی ہیں، یہ فیصلہ وفاقی و صوبائی حکومتوں نے کرنا ہے۔‘

حکومت اور فوج میں آئین کے مطابق موجود غیرسیاسی رشتے کو سیاسی رنگ دینا مناسب نہیں: ڈی جی آئی ایس پی آر

ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل احمد شریف چوہدری نے پریس کانفرنس کے دوران فوج کے خلاف سوشل میڈیا پر مہم سے متعلق سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ دنیا بھر میں اگر کسی فوج کو کسی خاص سیاسی یا مذہبی سوچ کے لیے استعمال کیا گیا تو اس سے انتشار ہی پھیلا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ عوام اور فوج دونوں یہ نہیں چاہیں گے کہ فوج کسی مخصوص سیاسی جماعت سے جڑے۔ ’سیاسی رہنماؤں کو چاہیے کہ ہماری سوچ کو تقویت بخشیں۔ فوج اور سیاستدانوں کو غیر سیاسی رشتہ ہوتا ہے، اسے سیاسی رنگ دینا مناسب نہیں ہو گا۔‘

ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل امجد شعیب کی گرفتاری سے متعلق سوال پر ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ ’ویٹرن (ریٹائرڈ فوجی) ہمارا اثاثہ ہیں۔ افواج پاکستان کے لیے ان کی قربانیاں ہیں۔ ویٹرن گروہ سیاسی تنظیمیں نہیں ہوتیں بلکہ فلاحی کام کرتی ہیں۔ انھیں سیاست نہیں کرنی چاہیے۔‘

پنجاب میں انتخابات کے لیے فوجی جوان فراہم کرنے کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ’افواج پاکستان کی تعیناتی آرٹیکل 245 کے تحت وفاقی حکومت کرتی ہے۔ وزارت دفاع نے (اس معاملے میں) الیکشن کمیشن اور سپریم کورٹ کو ہمارا جو موقف بتایا ہے وہ زمینی حقائق پر مبنی ہے۔‘

جب ان سے موجودہ آرمی چیف کے پارلیمان میں دیے گئے بیان ’نئے، پرانے پاکستان کے بجائے ہمارے پاکستان کی بات کرنی چاہیے‘ کی بابت پوچھا گیا تو وضاحت کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’آرمی چیف نے کہا ہے کہ چیلنجز سے نمٹنے کے لیے ملک کے تمام سٹیک ہولڈرز اتفاق رائے قائم کریں۔‘

کیا عمران خان سکیورٹی رسک بن چکے ہیں اور کیا عید کے بعد ملک میں ایمرجنسی یا مارشل لا لگنے جا رہا ہے؟ اس سوال پر جواب دیتے ہوئے ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ ’سوشل میڈیا پر آئے روز فوجی حکام کے خلاف صبح شام نامی و بے نامی اکاؤنٹس سے پروپیگنڈا جاری ہے۔ اب آپ پر ہے کہ آپ اسے کس نظر سے دیکھتے ہیں۔‘

’فوج کے عہدیداروں کے خلاف کچھ باتیں غیر ذمہ دارانہ اور غیر آئینی ہیں‘

ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل احمد شریف چوہدری نے پریس کانفرنس میں مزید کہا ہے کہ فوج کے عہدیداروں کے خلاف کچھ باتیں غیر ذمہ دارانہ اور غیر آئینی ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’آئین پاکستان ہر شہری کو آزادی رائے کا حق دیتا ہے۔ مگر چند قوانین اور بندشیں ہیں۔ فوج کے عہدیداروں کے خلاف کچھ باتیں غیر ذمہ دارانہ اور غیر آئینی ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ اس کے پیچھے ذاتی اور سیاسی مقاصد ہوں۔‘

’فوج کی تربیت اسے اجازت نہیں دیتی کہ ہر بات کا جواب دیا جائے۔ اگر یہی بات چیت صحافیوں یا سیاسی رہنماؤں کے بارے میں کی جائیں تو انھیں جواب کا حق ہے۔ ججز کے لیے ہتک عزت کا قانون موجود ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’اداروں کے بارے میں باتوں کے خلاف قانون کے تحت کارروائی کی جاسکتی ہے۔‘

’ہمارے لیے تمام سیاستدان، تمام جماعتیں قابل احترام‘

ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل احمد شریف چوہدری کہتے ہیں کہ ’پاکستانی فوج ایک قومی فوج ہے۔ ہمارے لیے تمام سیاستدان، تمام جماعتیں قابل احترام ہیں۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’ہر شخص کو رائے کا حق ہے۔ آرمی چیف جنرل عاصم منیر اعادہ کرتے ہیں کہ اصل طاقت کا محور عوام پاکستان ہیں۔ جہاں تک سیاست کا تعلق ہے، پاکستانی فوج قومی فوج ہے۔ ہمارے لیے تمام سیاستدان، تمام جماعتیں قابل احترام ہیں۔‘

’فوج یہ نہیں چاہے گی کہ کسی ایک نظریے یا جماعت کی طرف جائے۔ فوج میں ہر علاقے کی نمائندگی ہے۔۔۔ فوج کا ان سے تعاون دہشتگردی کے خلاف آپریشن کی حد تک ہوتا ہے۔‘

’پاکستان اور انڈیا کے دفاعی بجٹ میں فرق ہے‘

ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل احمد شریف چوہدری نے مزید کہا ہے کہ پاکستان اور انڈیا کے دفاعی بجٹ میں فرق ہے، کئی دہائیوں سے ان کا بجٹ زیادہ ہے مگر پاکستانی فوج کا ایک، ایک سپاہی جذبے سے سرشار ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’بھارت کے جارحانہ عزائم اور بے بنیاد الزامات تاریخ کو نہیں بدل سکتے۔ کشمیر کی علامی تسلیم شدہ متنازع حیثیت کو نہیں بدل سکتے۔ کشمیر نہ کبھی بھارت کا اٹوٹ حصہ رہا ہے، نہ رہے گا۔ آرمی چیف نے پہلا دورہ لائن آف کنٹرول کا کیا اور پیغام دیا کہ پاکستانی فوج دفاع کی صلاحیت رکھتی ہے، ضرورت پڑنے پر لڑائی دشمن کے علاقے میں لے جائی جاسکتی ہے۔‘

’کسی بھی مہم جوئی کے خلاف بھرپور جواب دیا جائے گا۔ پلوامہ میں انڈین حکام نے خود منصوبہ بندی کے ساتھ حملہ کروایا۔‘

پاکستان میں آج کوئی نو گو ایریا نہیں: ڈی جی آئی ایس پی آر

پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے سربراہ میجر جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا ہے کہ آج پاکستان میں کوئی نو گو ایریا نہیں ہے۔

منگل کو پریس کانفرنس کے دوران وہ کہتے ہیں کہ اندرونی اور بیرونی چیلنجز کے باوجود پاکستانی فوج کی کامیابیاں ڈھکی چھپی نہیں جنھیں دنیا نے تسلیم کیا ہے، آخری دہشتگرد کے خاتمے تک جنگ جاری رہے گی۔

’دہشتگردی کے خلاف جنگ دو دہائیوں کا طویل سفر ہے۔ تمام حکومتوں نے ان آپریشنز کی حمایت کی۔‘

اپنا تبصرہ بھیجیں