طالبان نے کابل ایئرپورٹ حملے میں ملوث داعش لیڈر کو ہلاک کر دیا

کابل (ڈیلی اردو/ڈی پی اے/اے پی/رائٹرز/اے ایف پی) اگست سن 2021 میں افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کے دوران کابل ہوائی اڈے پر ایک خودکش دھماکہ ہوا تھا، جس میں 13 امریکی فوجیوں سمیت درجنوں افغان شہری ہلاک ہو گئے تھے۔

امریکی حکام نے 26 اپریل بدھ کے روز بتایا کہ اگست 2021 میں افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے دوران کابل ہوائی اڈے پر ہونے والے خودکش بم حملے کے مشتبہ ماسٹر مائنڈ کو اس ماہ کے اوائل میں طالبان نے ہلاک کر دیا۔

26 اگست 2021 کے روز خود کش حملے میں کابل کے ہوائی اڈے کے ایبی گیٹ کو نشانہ بنایا گیا تھا، جہاں طالبان کے کنٹرول کے بعد بڑی تعداد میں لوگ شہر سے باہر جانے کی کوشش کر رہے تھے اور ایئرپورٹ کے آس پاس لوگوں کا زبردست ہجوم تھا۔

اس حملے میں تقریباً 170 افغان اور 13 امریکی فوجی ہلاک ہو گئے تھے۔

امریکی قومی سلامتی کونسل کے ترجمان جان کربی نے بدھ کے روز کہا کہ ”وہ آئی ایس آئی ایس خراسان ونگ (داعش) کا ایک اہلکار تھا، جو ایبی گیٹ جیسی کارروائیوں کی منصوبہ بندی میں براہ راست ملوث تھا، اور اب وہ حملوں کی منصوبہ بندی یا ایسی کارروائی کرنے کے قابل نہیں رہا۔”

امریکہ نے متاثرین کے اہل خانہ کو مطلع کر دیا

ہفتے کے اواخر میں امریکی فوج نے کابل ہوائی اڈے پر ہلاک ہونے والے 13 امریکی فوجی اہلکاروں کے اہلخانہ کو اس بارے میں اطلاع دینا شروع کیا تھا۔

ہلاک ہونے والے امریکی فوجیوں میں سے ایک کے والد ڈیرن ہوور نے خبر رساں ایجنسی ایسوسی ایٹیڈ پریس کو بتایا کہ داعش سیل کے رہنما کی موت سے انہیں کچھ سکون ملا ہے۔

اسٹاف سارجنٹ ڈیرن ٹیلر ہوور کے والد نے کہا: ”اب چاہے کچھ بھی ہو، ٹیلر کو کبھی واپس نہیں لایا جا سکتا اور میں اس بات کو سمجھتا ہوں۔”

ڈیرن ہوؤر نے مزید کہا، ”اب میں اور اس کی ماں صرف ایک ہی چیز کر سکتے ہیں اور وہ ہے اس کا وکیل بننا۔ ہم صرف سچائی چاہتے ہیں، تاہم ہمیں وہ حاصل نہیں ہو رہی ہے۔ یہ بڑا مایوس کن ہے۔”

انہوں نے کہا کہ وہ اور ان کی اہلیہ نے گزشتہ ڈیڑھ برس اپنے بیٹے کی موت کے غم میں گزارے ہیں اور جس طرح سے انخلا کیا گیا اس کے لیے بائیڈن انتظامیہ کو جوابدہ ٹھہرانے کے لیے وہ دعا کرتے رہے ہیں۔

امریکی خبر رساں ادارے اے پی کا کہنا ہے کہ اس نے متاثرہ فوجیوں کے جن اہل خانہ سے بات کی انہیں، ہلاک ہونے والے داعش کے عسکریت پسند کی موت کے حالات کی حساسیت کو دیکھتے ہوئے، اس سیل کے سربراہ کا نام عوامی طور پر یا خاندان کے افراد کو نہیں بتایا گیا۔

امریکی حکام نے بس اتنا بتایا کہ مذکورہ عسکریت پسند اس ماہ کے اوائل میں جنوبی افغانستان میں طالبان اور داعش کے درمیان ہونے والی لڑائی کے دوران مارا گیا۔

بائیڈن انتظامیہ کے سینیئر حکام کے مطابق امریکی انٹیلیجنس نے بعد میں اس کی ”بڑے اعتماد” کے ساتھ تصدیق کی کہ حالیہ دنوں میں دہشت گردی سیل کا سربراہ مارا گیا ہے۔

عسکریت پسند کی ہلاکت میں امریکہ کا کوئی کردار نہیں

خبر رساں ایجنسی اے پی نے اطلاع دی ہے کہ متعدد امریکی عہدیداروں نے اسے بتایا کہ داعش کے عسکریت پسند کی ہلاکت میں امریکہ نے کوئی کردار ادا نہیں کیا اور نہ ہی طالبان کے ساتھ اس میں کوئی تعاون یا رابطہ کیا۔

تاہم امریکی انتظامیہ کے اہلکاروں نے کہا کہ انہیں اس آپریشن کے بارے میں اپنی ” افق پردستیاب صلاحیت” سے پتہ چلا۔ امریکہ انسداد دہشت گردی سے متعلق انٹیلیجنس جمع کرنے کی اپنی مخصوص صلاحیت کے لیے یہ اصطلاح استعمال کرتا ہے، جہاں زمین پر اگر اس کے فوجی نہ بھی موجود ہوں تو بھی ایسے دور دراز کے خطرات کی نشاندہی کرنے کے ساتھ ہی اس سے نمٹا جا سکتا ہے۔

صدر جو بائیڈن نے بارہا امریکہ کی اس صلاحیت کو ایک ایسی صلاحیت کے طور پر بیان کرتے رہے ہیں، جو حکام کو امریکہ کے لیے کسی بھی خطرے کی نگرانی کرنے کے عمل کو آسان بناتی ہے۔

بیس سالہ جنگ کے بعد ہنگامہ خیز انخلاء

افغانستان میں طالبان اورداعش کے جنگجوؤں میں ماضی میں بھی آپس میں لڑائی ہوتی رہی ہے۔ لیکن فکر یہ تھی کہ کیا افغانستان پر طالبان کے قبضے کے بعد بھی یہ ملک امریکہ یا دیگر ممالک پر حملہ کرنے کے لیے انتہا پسندوں کی محفوظ پناہ گاہ بن جائے گا۔

سن 2021 میں کابل سے افراتفری پر مبنی امریکی انخلاء کے لیے بائیڈن انتظامیہ پر شدید تنقید ہوتی رہی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پہلے تو ملک 20 برس سے جاری جنگ کی حمایت کرتا تھا اور پھر اس نے اچانک امریکیوں اور افغانوں کو وہاں سے نکالنے کی کوشش کی۔

اس ماہ کے اوائل میں وائٹ ہاؤس نے انخلا کے عمل کے اپنے جائزے میں، بائیڈن کے تمام فوجیوں کو نکالنے کے فیصلے کا دفاع کیا۔ تاہم اس نے یہ بھی اعتراف کیا کہ طالبان نے جس تیزی سے ملک کو فتح کیا، امریکی انٹیلیجینس اس کی پیش گوئی کرنے میں بری طرح ناکام رہی تھی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں