برکینا فاسو میں سیکیورٹی فورسز کے ہاتھوں 150 شہری ہلاک اور متعدد زخمی

اواگادوگو (ڈیلی اردو/اے پی/وی او اے) بیانات خوفناک ہیں۔ خواتین کو جن کی پیٹھ پر بچے تھے ہلاک کر دیا گیا ، زخمیوں کو ہراساں کیا گیا جب کہ دیہاتی اپنے پڑوسیوں کو ہلاک ہوتے کو دیکھ رہے تھے اس خوف کے ساتھ کہ اگلا شکار وہ ہوں گے۔ یہ ان مظالم میں سے کچھ ہیں جن کا ارتکاب مبینہ طور پر ملک کے شمال میں برکینا فاسو کی سیکیورٹی فورسز نے کیا۔

برکینا فاسو کے گاؤں کرما کے مقامی لوگوں نے، جہاں یہ تشدد ہوا تھا ایک بیان میں کہا کہ یہ گزشتہ جمعرات کی صبح کا وقت تھا۔ جب گاؤں کے لوگ جاگے تو انہوں نے فوجی وردیوں میں ملبوس مسلح افراد کے ایک بڑے گروپ کو دیکھا جو، موٹر سائیکلوں اور بکتر بند ٹرکوں کو چلا رہے تھے۔ کچھ گاؤں والے ہمارے فوجیوں’ کو دیکھ کر خوش ہوئے، ان کے استقبال کے لیے اپنے گھروں سے باہر نکل آئے۔ بدقسمتی سے یہ خوشی اس وقت ختم ہو گئی جب پہلی گولیاں چلیں، جس سے پہلی ہلاکتیں بھی ہوئیں۔

اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ شمالی برکینا فاسو میں تشدد میں کم از کم 150 شہری ہلاک اور متعدد زخمی ہو سکتے ہیں۔

اقوام متحدہ کے انسانی حقوق سے متعلق ہائی کمشنر روینا شمسدانی نے منگل کو ایک بیان میں کہا کہ اقوام متحدہ اس واقعے کی جسے اس نے عام شہریوں کی خوفناک ہلاکت کہا، فوری، آزادانہ اور غیر جانبدارانہ تحقیقات کا مطالبہ کر رہا ہے۔

اس ہفتے کے شروع میں برکینا فاسو کے پراسیکیوٹر نے کہا تھا کہ اس نے ہلاکتوں کے بارے میں پہلے ہی تحقیقات شروع کر دیں ہیں لیکن اس نے اموات کی تعداد 60 بتائی جو اقوام متحدہ اور مقامی رہائشیوں کے اندازے سے نصف سےبھی کم ہے۔

القاعدہ اور داعش سے منسلک جہادی جنگجو برکینا فاسو میں سات سال سے پر تشدد شورش برپا کر کیے ہوئے ہیں۔ اس تشدد نے ہزاروں لوگوں کو ہلاک اور ملک کو تقسیم کر دیا ہے جس کے نتیجے میں گزشتہ سال دو فوجی انقلاب آئے۔ انسانی حقوق کے گروپس اور مقامی رہائشیوں کے مطابق ستمبر 2022 میں دوسرے فوجی انقلاب کےدوران جب سے کیپٹن ابراہیم ٹراورے نے اقتدار پر قبضہ کیا، جس کے بعد سے شہریوں کے ماورائے عدالت قتل میں اضافہ ہو گیا ہے۔

یہ واقعہ جو سیکیورٹی فورسز کے ہاتھوں شہریوں کے خلاف ایک مہلک ترین واقعہ تھا، ایسے میں پیش آیا ہے جب فوج کے خلاف ان لوگوں کی ہلاکتوں کے ارتکاب کے الزامات میں اضافہ ہورہا ہےجن کے بارے میں فوج کا خیال ہے کہ وہ جہادیوں کی مدد کر رہے ہیں۔

اس ماہ کے شروع، برکینا فاسو کی حکومت نے اس ویڈیو کے منظر عام کے بعد جس میں بظاہر ملک کے شمال میں سات بچوں کی ماورائے عدالت ہلاکت دکھائی گئی تھی، یہ اعلان کیا کہ وہ اپنی سیکیورٹی فورسز کے ہاتھوں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات کی ایک اور تحقیقیاتی کارروائی شروع کر رہی ہے۔

ایسو سی ایٹڈ پریس نے اس ماہ ویڈیو کے بارے میں اپنی تحقیقاتی رپورٹ شائع کی۔ اے پی کی تحقیقات میں یہ متعین کیا گیا کہ برکینا فاسو کی سیکیورٹی فورسز نے بچوں کو قصبے اوہائی گویا کے باہر ایک فوجی چھاونی میں ہلاک کیا تھا۔

دیہاتیوں کے ایک بیان کے مطابق گزشتہ ہفتےکے حملے سے چند روز قبل، سیکیورٹی ذرائع کے لگ بھگ 40 اہلکاروں کو اوہائیگویا کے قریب ہلاک کیا گیا۔ زندہ بچ جانے والوں نے کہا کہ فوجیوں نے ان پر جہادیوں کو اپنے گاؤں سے گزرنے کی اجازت دینے کی وجہ سے ان کے ساتھی ہونے کا الزام عائد کیا تھا۔

بیان میں کہا گیا کہ کمیونٹی کے لوگ اپنے رشتے داروں کی تدفین نہیں کر سکے کیوں کہ فوج کی سڑکوں کی ناکہ بندی نے انہیں گاؤں پہنچنے سے روک دیا۔

تنازعوں سے متعلق تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ خلاف ورزیاں برکینا فاسو کی فوجی حکومت کےلیے ایک دھچکا ثابت ہو سکتی ہیں اور لوگوں کو جہادیوں کے ہاتھوں میں دھکیل سکتی ہے۔

انسانی حقوق کی بیان کی گئیں خلاف ورزیاں عسکریت پسندوں کی سر گرمیوں کو فائدہ پہنچا سکتی ہیں، اس سے انہیں سیکیورٹی فورسز کے خلاف بات کرنے کا موقع ملتا ہے اور شمال میں بھرتی کی ان کی کوششوں میں مدد ملتی ہے۔ انٹیلی جنس کا تجزیہ فراہم کرنے والی ویب سائٹ، انٹیلو نکس انٹیلی جنس ایڈوائزری کے سی ای او لیث الخوری نے کہا ہے کہ یہ واقعات خوفناک نتائج کو جنم دے سکتے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں