کلبھوشن جادھو کی گرفتاری بھارت کی پاکستان میں دہشتگردی کا ثبوت ہے، ممتاز بلوچ ترجمان دفتر خارجہ

اسلام آباد (ڈیلی اردو) ترجمان دفتر خارجہ ممتاز زہرہ بلوچ نے کہا ہےکہ کلبھوشن کی گرفتاری بھارت کی پاکستان میں دہشتگردی کا ثبوت ہے لہٰذا بھارتی وزیر خارجہ کے حالیہ ریمارکس غیر ضروری اور بے بنیاد ہیں۔

اسلام آباد میں ہفتہ وار پریس بریفنگ کے دوران ترجمان دفتر خارجہ ممتاز زہرا بلوچ نے کہا کہ پاکستان دہشتگردی سے متاثرہ ملک رہا ہے، ہمارے پاس بھارت کی طرف سے پاکستان میں دہشتگردی میں ملوث ہونےکے ثبوت ہیں۔

ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ روس اور یوکرین کے درمیان تنازع پر پاکستان غیر جانبدار پالیسی پر سختی سے عمل پیرا ہے، ہم نے اس دوران کسی فریق کو اسلحہ فراہم نہیں کیا، اس تنازع سے قبل یوکرین سے قریبی دفاعی تعلقات رہے ہیں۔

ترجمان کا کہنا تھا کہ بھارتی مقبوضہ کشمیر میں مظالم کا سلسلہ جاری ہے، سید شکیل یوسف اور سید شاہد یوسف نامی کشمیریوں کی پراپرٹیز قبضہ کر لی گئی ہیں، دونوں کشمیری پہلے ہی بھارت کی تحویل میں ہیں۔پاکستان دہشت گردی کا متاثرہ ملک رہا ہے۔

ترجمان نے بتایا کہ وزیر اعظم شہباز شریف 6 مئی کو برطانوی بادشاہ چارلس کی تاج پوشی کے لیے برطانیہ جائیں گے۔

ترجمان دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ ہندوستان کی میزبانی میں شنگھائی تعاون تنظیم کے وزرائے دفاع کا اجلاس معاون خصوصی برائے دفاع ملک احمد خان نے اجلاس میں ویڈیو لنک پر پاکستان کی نمائندگی کی، معاون خصوصی ملک احمد خان نے وزیر دفاع خواجہ محمد آصف کی جگہ اجلاس میں شرکت کی۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کی اجلاس میں شرکت شنگھائی تعاون تنظیم چارٹر کی توثیق کے عزم کا اظہار ہے، پاکستان کی شرکت، علاقائی تعاون کو مزید مستحکم بنانے کے عزم کی تجدید ہے۔

کلبھوشن جادھو کیس: کب کیا ہوا؟

مارچ 2016 میں پاکستان نے کلبھوشن جادھو کو بلوچستان سے گرفتار کیا تھا۔ اس کے بعد اپریل 2017 میں پاکستان کی فوجی عدالت نے انڈین کمانڈر کلبھوشن جادھو کو جاسوسی کے الزام میں سزائے موت سنائی تھی۔

انڈیا نے 8 مئی 2017 کو عالمی عدالتِ انصاف میں پاکستان کے خلاف جمع کرائی گئی درخواست میں دعویٰ کیا کہ پاکستان نے 1963 کے ویانا کنونشن کی خلاف ورزی کی ہے۔ جس کی شِق 36 کے تحت کلبھوشن جادھو کو نہ ہی قونصلر رسائی دی گئی اور نہ ہی انھیں ان کے حقوق بتائے گئے۔

اسی روز انڈیا نے ایک اور درخواست میں یہ استدعا بھی کی تھی کہ جادھو کو اس کیس کے تمام نکات پر دلائل دیے بغیر سزائے موت نہ دی جائے اور اس ضمن میں لیے گئے تمام اقدامات کے بارے میں عدالت کو بتایا جائے۔

17 جولائی 2019 کو عالمی عدالت انصاف نے اپنے فیصلے میں پاکستان کو کہا تھا کہ وہ مبینہ جاسوس کی سزائے موت پر نظرثانی کرے اور انھیں قونصلر رسائی دے۔ عدالت نے قرار دیا تھا کہ پاکستان نے کلبھوشن جادھو کو قونصلر تک رسائی نہ دے کر ویانا کنونشن کی شق 36 کی خلاف ورزی کی ہے۔

جس کے بعد جولائی 2020 میں پاکستان کے ایڈیشنل اٹارنی جنرل احمد عرفان نے کہا تھا کہ پاکستان میں زیر حراست مبینہ انڈین جاسوس کلبھوشن جادھو نے اپنی سزا کے خلاف نظرثانی کی درخواست دائر کرنے سے انکار کر دیا ہے اور اس کے بجائے وہ اپنی رحم کی اپیل کے پیروی جاری رکھیں گے۔

پاکستان کے دفترِ خارجہ میں نیوز کانفرنس کے دوران انھوں نے کہا تھا کہ ’کمانڈر جادھو کو والد سے ملاقات کروانے کی پیشکش کی ہے۔ انڈین حکومت کو مراسلہ بھجوا دیا گیا جبکہ کمانڈر جادھو کو دوبارہ قونصلر رسائی کی پیشکش پر انڈین حکومت کے جواب کا انتظار ہے۔‘

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ حالانکہ پاکستان کا قانون نظرِثانی کا حق فراہم کرتا ہے لیکن عالمی عدالت انصاف کے فیصلے پر صحیح طور سے عملدرآمد کو یقینی بنانے کے لیے پاکستان نے 28 مئی کو ’انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس ریویو اینڈ ری کنسڈریشن آرڈینسس 2020 نافذ کیا۔‘

اس آرڈیننس کے تحت 60 روز میں ایک درخواست کے ذریعے اسلام آباد ہائی کورٹ میں نظرِثانی اور دوبارہ غور کی اپیل دائر کی جا سکتی ہے۔ یہ اپیل کمانڈر جادھو خود، ان کا قانونی نمائندہ یا انڈین ہائی کمیشن دائر کر سکتے ہیں۔

عالمی عدالت انصاف (آئی سی جے) میں جو کیس پاکستان نے جیتا تھا اس کے فیصلے کے اہم نکات میں یہ بات بھی شامل تھی کہ ویانا کنونشن برائے قونصلر روابط کی شِق 36 کے تحت کلبھوشن جادھو کو ان کے حقوق کے بارے میں بتایا جائے۔

اس کے علاوہ فیصلے میں کہا گیا تھا کہ کلبھوشن کیس پر مؤثر نظرثانی کے لیے تمام تر اقدامات اٹھائے جائیں جس میں اگر ضرورت پڑے تو قانون سازی کا نفاذ بھی شامل کیا جائے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں