روس نے بیلاروس میں اپنے جوہری ہتھیار نصب کردیے

ماسکو (ڈیلی اردو/بی بی سی) روسی صدر ولادیمیر پوتن نے اپنے ٹیکٹیکل جوہری ہتھیاروں کی پہلی کھیپ بیلاروس میں پہنچانے کا اعلان کر دیا ہے۔ واضح رہے کہ ٹیکٹیکل نیوکلیئرویپن دراصل ایسے چھوٹے جوہری ہتھیار ہوتے ہیں جن کا مقصد میدان جنگ میں یا حملے کے لیے کسی محدود جگہ کو نشانہ بنانے اور کم رینج تک مار کرنا ہوتا ہے۔

روسی صدر نے ایک فورم پر اس حوالے سے مزید کہا کہ ان جوہری ہتھیاروں کو صرف اس صورت میں استعمال کیا جائے گا جب روس کو اپنی سرزمین یا ریاست کو خطرہ لاحق ہونے کا خدشہ ہو گا۔

دوسری جانب امریکی حکومت کا کہنا ہے کہ انھیں کریملن کی جانب سے یوکرین پر حملہ کرنے کے لیے جوہری ہتھیار استعمال کرنے کے کوئی اشارے نہیں ملے ہیں۔

امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے صدر پوتن کے بیانات پر ردِعمل میں کہا ہے کہ ’ہمیں ایسے کوئی اشارے نہیں ملے جو روس کی جانب سے جوہری ہتھیار استعمال کرنے کی تیاری کو ظاہر کریں۔‘

واضح رہے کہ بیلا روس نے روس کا ایک اہم اتحادی ہونے کے باعث گزشتہ سال فروری میں صدر پوتن کی جانب سے یوکرین پر بھرپور حملے کے لیے مکمل معاونت فراہم کی تھی۔

صدر پوتن کے مطابق ٹیکٹیکل جوہری ہتھیاروں کی منتقلی کا کام موسم گرما کے آخر تک مکمل ہو جائے گا۔

سینٹ پیٹرزبرگ انٹرنیشنل اکنامک فورم میں اپنے خطاب کے بعد پوچھے گئے سوالات کا جواب دیتے ہوئے صدر پوتن نے کہا کہ ’ان کا یہ اقدام کسی کو بھی روس پر سٹریٹجک شکست سے دوچار کرنے کی سوچ کو لگام دینے کے لیے ہے۔‘

جب فورم کے منتظمین سے ان ہتھیاروں کے استعمال کے امکان کے بارے میں پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’ہم پوری دنیا کو کیوں دھمکائیں گے؟ ہم پہلے ہی واضح کر چکے ہیں کہ روسی ریاست کو خطرہ ہونے کی صورت میں انتہائی اقدامات اٹھائے جا سکتے ہیں۔‘

صدر پوتن کے مطابق ٹیکٹیکل جوہری ہتھیاروں کی منتقلی کا کام موسم گرما کے آخر تک مکمل ہو جائے گا۔

سینٹ پیٹرزبرگ انٹرنیشنل اکنامک فورم میں اپنے خطاب کے بعد پوچھے گئے سوالات کا جواب دیتے ہوئے صدر پوتن نے کہا ’ان کا یہ اقدام کسی کو بھی روس پر سٹریٹجک شکست سے دوچار کرنے کی سوچ کو لگام دینے کے لیے ہے۔‘

جب فورم کے منتظمین سے ان ہتھیاروں کے استعمال کے امکان کے بارے میں پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’ہم پوری دنیا کو کیوں دھمکائیں گے؟ ہم پہلے ہی واضح کر چکے ہیں کہ روسی ریاست کو خطرہ ہونے کی صورت میں انتہائی اقدامات اٹھائے جا سکتے ہیں۔‘

چھوٹے ٹیکٹیکل جوہری ہتھیار ایک کلوٹن یا اس سے بھی کم ہو سکتے ہیں

ٹیکٹیکل نیوکلیئرویپن دراصل ایسے چھوٹے جوہری ہتھیار ہوتے ہیں جن کا مقصد میدان جنگ میں یا حملے کے لیے کسی محدود جگہ کو نشانہ بنانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

یہ جوہری ہتھیار ایک مخصوص علاقے میں دشمن کے اہداف کو تباہ کرنے کے لیے ڈیزائن کیے جاتے ہیں اور ان کی تابکاری کے تباہ کن اثرات وسیع پیمانے پر نہیں پھیلتے۔

ان میں سب سے چھوٹے ٹیکٹیکل جوہری ہتھیار ایک کلوٹن یا اس سے کم ہو سکتے ہیں جو ایک ہزار ٹن دھماکہ خیز مواد کی صلاحیت رکھتے ہیں جبکہ سب سے بڑے ٹیکٹیکل جوہرری ہتھیار 100 کلوٹن تک بڑے ہو سکتے ہیں۔

اس کا موازنہ اگر 1945 میں امریکہ کی جانب سے ہیروشیما پر گرائے گئے ایٹم بم سے کیا جائے تو اس کا وزن 15 کلوٹن تھا۔

سینٹ پیٹرزبرگ میں روسی قیادت کی افریقی رہنماؤں کے ساتھ قیام امن کے اقدام کے سلسلے میں ملاقات بھی متوقع ہے۔

اسی حوالے سے جمعے کے روز دونوں ممالک کے رہنما کیئو میں موجود تھے تاہم ان کی موجودگی کے دوران ہی یہ شہر روسی میزائل حملے کی زد میں آ گیا۔

جنوبی افریقہ کے صدر سیرل رامافوسا نے دونوں جانب سے کشیدگی میں کمی اور امن کے لیے مذاکرات پر زور دیا۔

انھوں نے کہا کہ ’ہم یہاں اس بات کو سننے اور جاننے کے لیے آئے ہیں کہ یوکرین کے عوام کس کرب سے گزرے ہیں۔‘تاہم یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے کہا ہے کہ روس کو سفارتی طور پر روکنے کے بجائے اسے عالمی برادری کی جانب سے اس حملے کی مذمت پہنچانے کی ضرورت ہے اور اس پیغام کے لیے ضروری ہے کہ روس کے ساتھ سفارتی تعلقات ختم کئے جائیں۔

یوکرین کو دیا جانے والا کوئی بھی ایف 16 امریکی لڑاکا طیارہ جل کر تباہ ہو جائے گا: روس کا دعوی

صدر زیلینسکی نے واصخ کیا ہے کہ کیئو ماسکو کے ساتھ جب تک مذاکرات کے عمل میں شامل نہیں ہو گا تب تک روس یوکرین کے علاقوں پر قابض رہے گا۔

دوسری جانب صدر پوتن نے اپنے اس دعوے کو بھی دہرایا ہے کہ یوکرین کو اپنے جوابی حملوں میں کامیابی ملنے کے کوئی امکانات نہیں ہیں۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ یوکرینی فوج کے پاس اب اپنے فوجی سازوسامان بھی ختم ہو رہا ہے اور وہ جلد ہی صرف مغربی ممالک کی جانب سے عطیہ کیے گئے ہتھیار کا ہی استعمال کرسکیں گے۔

’آپ اس طرح زیادہ دیر تک نہیں لڑ سکتے۔ یوکرین کو دیا جانے والا کوئی بھی ایف 16 امریکی لڑاکا طیارہ جل کر تباہ ہو جائے گا اور اس میں کوئی شک نہیں۔‘

یوکرین نے پہلے بھی اسی طرح کے دعووں کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ مشرقی اور جنوبی یوکرین دونوں علاقوں پر دوبارہ قبضہ کرنے میں مسلسل پیش رفت کر رہے ہیں۔

جمعہ کو یوکرین کی نائب وزیر دفاع حنا مالیار نے کہا کہ ملک کے جنوب میں فوجی یونٹس تمام سمتوں میں دو کلومیٹر آگے بڑھے ہیں۔ تاہم بی بی سی آزادانہ طور پر میدان جنگ کے بارے میں ان دعوؤں کی تصدیق نہیں کر سکتا۔

روسی رہنما نے اقتصادی موضوعات پر بھی بات کی اور یہ دعویٰ کیا کہ روس پر لگائی جانے والی مغربی پابندیاں نہ صرف اسے تنہا کرنے کی کوشش میں ناکام رہیں بلکہ اس کے برعکس تمام ہتھکنڈے روس کو ’مستقبل کی منڈیوں‘ کے ساتھ تجارت میں توسیع کا باعث بنے۔ انھوں نے ایشیا، مشرق وسطیٰ اور لاطینی امریکہ کے ممالک کے ساتھ نئے معاہدوں کی تعریف کی اور انھیں قابل اعتماد اور ذمہ دار شراکت دار قرار دیا۔

ماسکو نے بیلا روس کا انتخاب کیوں کیا ہے؟

بیلاروس ماسکو کا قریبی اتحادی ہے اور یوکرین پر روسی حملے کی حمایت کرتا ہے۔ بیلاروس کی طویل سرحد یوکرین اور نیٹو کے رکن ممالک پولینڈ، لیتھوینیا اور لیٹویا سے ملتی ہے۔

یہ انیس سو نوے کی دہائی کے بعد پہلی مرتبہ ہے کہ روس اپنے ایٹمی ہتھیاروں کو ملک سے باہر نصب کر رہا ہے۔

سنہ 1991 سے پہلے یہ ایٹمی ہتھیار روس، یوکرین، بیلاروس اور قازستان میں تھے جو سب سویت یونین کا حصہ تھے۔ لیکن سنہ 1991 میں سویت یونین کے ختم ہونے کے بعد یہ آزاد ممالک بن گئے۔ جس کے بعد ان ممالک میں نصب ایٹمی ہتھیاروں کو روس منتقل کرنے کا سلسلہ شروع ہوا جو سنہ 1996 میں مکمل ہوا۔

صدر پوتن نے روس کے سرکاری ٹی وی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بیلاروس کے صدر ایلگزینڈر لوکاشینکو کا عرصے سے ٹیکٹیکل ایٹمی ہتھیاروں کو بیلاروس میں نصب کرنے پر زور دیتے رہے ہیں۔

صدر پوتن نے کہا کہ ان کا فیصلہ کوئی غیرمعمولی بات نہیں ہے۔

’پہلی بات تو یہ ہے کہ امریکہ یہ کئی دہائیوں سے کر رہا ہے۔ امریکہ نے اپنے اتحادی ممالک میں اپنے ٹیکٹیکل ایٹمی ہتھیار کافی عرصے سے نصب کیے ہوئے ہیں۔‘

نیٹو نے روس کی جانب سے ایٹمی ہتھیاروں کی منتقلی کی مذمت کی ہے اور اسے خطرناک اور غیر ذمہ دارانہ قرار دیا ہے۔ نیٹو نے کہا ہے کہ وہ صورتحال کا بغور جائزہ لے رہا ہے۔

روس آئندہ ہفتے سے ایٹمی ہتھیاروں کی دیکھ بھال کرنے والے عملے کی تربیت کا آغاز کر رہا ہے۔ صدر پوتن نے بتایا کہ بیلاروس میں ٹیکٹیکل ایٹمی ہتھیاروں کو رکھنے کی جگہ کی تعمیر پہلی جولائی کو مکمل ہو جائے گی۔

ان ہتھیاروں کو جن میزائلوں کے ذریعے لانچ کیا جاتا ہے انھیں پہلے ہی بیلاروس منتقل کیا جا چکا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں