‘دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو جڑ سے ختم کرنے پر توجہ ہے’، افغان طالبان

کابل (ڈیلی اردو/اے پی/رائٹرز/ڈی پی اے) اقوام متحدہ کی ایک تازہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کابل میں طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے عطیہ دہندگان کی فنڈنگ میں تیزی سے کمی کی وجہ سے، افغان شہری طبی اور نفسیاتی مدد تک رسائی کے لیے جدوجہد کرنے پر مجبور ہیں۔

اقوام متحدہ کے مطابق اگست 2021 میں طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے افغانستان میں اب تک ایک ہزار سے زائد عام شہری بم دھماکوں اور دیگر نوعیت کے تشدد میں مارے جا چکے ہیں۔

اس کے رد عمل میں طالبان کی زیر قیادت وزارت خارجہ نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ ”ملک بھر میں سکیورٹی کو یقینی بنایا گیا ہے” اور وہ سمجھتے ہیں کہ عبادت گاہوں کی حفاظت ان کی ترجیحات میں شامل ہے۔

افغانستان میں اقوام متحدہ کے امدادی مشن (یو این اے ایم اے) نے منگل کے روز جاری ہونے والی اپنی ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ تشدد سے مجموعی طور پر 3,774 شہری متاثر ہوئے، جن میں ہلاک ہونے والوں کے ساتھ ساتھ زخمی ہونے والوں کے اعداد و شمار بھی شامل ہیں۔

اقوام متحدہ کے مطابق اگست 2021 سے مئی 2023 کے درمیان افغانستان میں 1,095 شہری ہلاک ہوئے۔ ہلاک ہونے والوں میں 92 خواتین اور 287 بچے بھی شامل ہیں۔

طالبان کے اقتدار پر قبضہ کرنے سے پہلے کی مدت کے مقابلے میں عام شہریوں کی اموات کی تعداد میں تیزی سے کمی بھی آئی ہے۔ اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق سال2020 میں 3,035 سے زیادہ شہری ہلاک ہوئے تھے۔

اقوام متحدہ کا حملوں کی ‘شدت’ پر تشویش کا اظہار

اقوام متحدہ کی نئی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ عبادت گاہوں، اسکول اور بازار سمیت زیادہ تر ہلاکتوں اور حملوں کے واقعات ”آبادی والے علاقوں میں پیش آئے، جو دیسی ساختہ دھماکہ خیز آلات کی وجہ سے ہوئے۔

گرچہ طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد خودکش حملوں کی تعداد میں کمی آئی ہے، تاہم اقوام متحدہ کی رپورٹ میں ایسے حملوں کی ”زبردست شدت” کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔

ملک میں نام نہاد اسلامی شدت پسند گروپ ”اسلامک اسٹیٹ” (داعش) کی طرف سے مسلسل خطرات کی وجہ سے بھی سلامتی کے چیلنجز کا سامنا ہے۔ یو این اے ایم اے کا کہنا ہے کہ یہی گروپ افغانستان میں ہونے والے بیشتر حملوں کا ذمہ دار ہے۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ تشدد کے یہ واقعات ایسے وقت ہوئے جب افغانستان ملک گیر معاشی اور مالیاتی بحران کی لپیٹ میں ہے۔

اس تازہ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ طالبان کے قبضے کے بعد سے عطیہ دہندگان کی فنڈنگ میں تیزی سے کمی آئی ہے، جس کی وجہ سے متاثرین کے لیے ”طبی، مالی اور نفسیاتی مدد” تک رسائی بہت مشکل ہو گئی ہے۔

تحفظ کو ترجیح دینے کا طالبان کا دعویٰ

اقوام متحدہ کی اس رپورٹ کے رد عمل میں طالبان کی زیر قیادت وزارت خارجہ نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ ”ملک بھر میں سکیورٹی کو یقینی بنایا گیا ہے” اور وہ سمجھتے ہیں کہ عبادت گاہوں کی حفاظت ان کی ترجیحات میں شامل ہے۔

طالبان کا مزید کہنا ہے کہ انہوں نے اسلامک اسٹیٹ کے ٹھکانوں کے خلاف چھاپے مارنے کی متعدد کارروائیاں بھی کی ہیں اور ”دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے بروقت کارروائی” کو یقینی بنانے پر اپنی توجہ مرکوز کر رہے ہیں۔

اقوام متحدہ کے ادارے نے طالبان حکومت کو لوگوں کے تحفظ کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔

اگست 2021 میں جب نیٹو فوجی دو دہائیوں کی جنگ کے بعد ملک سے انخلاء کے آخری ہفتوں میں تھے، اسی دوران طالبان نے افغانستان کا کنٹرول سنبھال لیا تھا۔

طالبان قیادت کا موقف ہے کہ انہوں نے ملک کا اقتدار اس وقت سنبھالا جب افغانستان ”تباہی کے دہانے” پر تھا اور یہ کہ وہ ”ملک اور حکومت کو بحران سے بچانے میں کامیاب رہے۔”

طالبان نے پہلے افغانستان میں ایک اعتدال پسند انتظامیہ کا وعدہ کیا تھا، تاہم کنٹرول سنبھالنے کے بعد سے وہ سخت ترین شرعی قوانین نافذ کرتے رہے ہیں۔ لڑکیوں کو چھٹی جماعت کے بعد اب تعلیم حاصل کرنے کی اجازت نہیں ہے اور افغان خواتین کو عوامی زندگی اور زیادہ تر ملازمتوں سے روک دیا گیا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں