اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس: روس نے شام کیلئے انسانی امداد کو ویٹو کر دیا

نیو یارک (ڈیلی اردو/اے ایف پی/اے پی/رائٹرز) سکیورٹی کونسل میں یہ صورت حال اس وقت پیدا ہوئی جب روس نے شام میں امدادی پروگرام میں نو ماہ کی توسیع کو ویٹو کیا لیکن وہ خود بھی چھ ماہ کے متبادل منصوبے پر حمایت حاصل کرنے میں ناکام رہا۔

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل منگل کے روز شام میں امداد کی فراہمی سے متعلق ایک اہم پروگرام کی تجدید میں ناکام رہی، جس کی وجہ سے ایک اندازے کے مطابق شام کے تقریباً 40 لاکھ افراد کے ایک سنگین صورتحال میں گرفتار ہو جانے کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔

ملک میں جاری خانہ جنگی اپنی دوسری دہائی میں داخل ہو چکی ہے اور اس پریشان کن صورتحال میں ملک کی ایک بڑی آبادی بیرونی امداد پر ہی انحصار کرتی ہے۔

انسانی امداد کی ترسیل سے متعلق اقوام متحدہ کی ثالثی میں پہلا معاہدہ سن 2014 میں طے پایا تھا۔ اس کے تحت ترکی سے شام کے شمال مغربی صوبہ ادلب میں باغیوں کے زیر قبضہ علاقوں تک انسانی امداد کو پہنچانے کے لیے باب الحوا کراسنگ کے ذریعے سامان بھیجنے کی اجازت دی گئی تھی۔ تاہم اس معاہدے میں آخری توسیع کی میعاد بھی پیر کو ختم ہو گئی۔

اقوام متحدہ میں سکیورٹی کونسل کے مستقل ارکان امریکہ، برطانیہ اور فرانس نے اس معاہدے میں مکمل ایک سال کی توسیع کا مطالبہ کیا تھا، تاہم اس مغربی منصوبے کی روسی مخالفت کی وجہ سے سوئٹزرلینڈ اور برازیل کی طرف سے پیش کردہ ایک دیگر سمجھوتے پر اتفاق ہوا۔ بالآخر کونسل کے 15 میں سے 13 ارکان نے اس نو ماہ کے توسیعی منصوبے کے حق میں ووٹ دیا۔

لیکن مستقل رکن روس نے نو ماہ کے اس منصوبے کو ویٹو کر دیا۔ اس کے بعد اس نے چھ ماہ کی توسیع کے لیے اپنی تجویز پیش کی، تاہم وہ اس پر محض اپنے قابل اعتماد اتحادی چین، جو مستقل رکن ہے، کی ہی حمایت حاصل کر سکا۔

ووٹنگ کے بعد اقوام متحدہ میں امریکی سفیر لنڈا تھامس گرین فیلڈ نے روس کی جانب سے ویٹو کرنے کو ”یکسر ظالمانہ عمل” قرار دیا۔ ادھر روس نے مغربی ممالک پر ویٹو پر اکسانے کا الزام عائد کیا۔

ماسکو گزشتہ کئی برسوں سے اس دلیل کے ساتھ اس معاہدے کو ختم کرنے کی کوشش کرتا رہا ہے کہ اس میں شامی عوام کی مرضی کو ”نظر انداز” کیا گیا ہے۔ دمشق میں ماسکو کے مفاد کے محافظ شامی صدر بشار الاسد امداد کی ترسیل کو ملک کی خود مختاری کی خلاف ورزی قرار دیتے ہیں، کیونکہ بقول ان کے ان کی حکومت نے کبھی اس کو منظور نہیں کیا۔

اس کا مطلب یہ ہوا کہ صرف اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کو ہی اس پروگرام میں دوبارہ توسیع کی اجازت کا حق حاصل ہے، تاہم جب تک کوئی فیصلہ نہیں ہوتا اس وقت تک اس کی قسمت غیر واضح ہے۔

امداد کی ترسیل کے لیے اقوام متحدہ کی چار اصل کراسنگ ہیں، جس میں سے پیر کے روز ایک ہی کام کر رہی تھی۔ پھر بھی ڈائپر اور دیگر کھانے کا تقریبا ً80 فیصد سامان سرحد کے اس پار پہنچایا گیا۔

مبصرین ایک طویل عرصے سے اس پروگرام میں سالانہ میعاد کی توسیع کا مطالبہ کرتے رہے ہیں، لیکن ماسکو اس میں چھ ماہ سے زیادہ کی توسیع کا مخالف رہا ہے اور وہ ایسی کوششوں کو روکتا رہا ہے۔

روس کے ویٹو کرنے کی مذمت

اقوام متحدہ کے دفتر کے باہر موجود حقوق انسانی کی تنظیموں نے اس پر کافی ناراضی کا اظہار کیا۔

ہیومن رائٹس واچ سے تعلق رکھنے والی اقوام متحدہ میں ایڈووکیسی افسر فلورین بوریل نے اقو ام متحدہ کی سلامتی کونسل کی نا اہلی پر تنقید کرتے ہوئے کہا، ”لاکھوں شامیوں کے لیے سرحد پار امدادی لائف لائن سے متعلق روس کا مذموم ویٹو اس بات کی تکلیف دہ یاد دہانی کراتا ہے کہ انسانی امداد سے متعلق فیصلے سلامتی کونسل کو سونپنے ہی نہیں چاہیے تھے۔”

بوریل نے مزید کہا، ”امداد کی ترسیل ضرورتوں پر مبنی ہونی چاہیے، سیاست پر ہرگز نہیں۔”

اقوام متحدہ میں انسانی امور کے سربراہ مارٹن گریفتھس نے اس صورتحال کو شام کے ”شمال مغرب کے لوگوں اور ان بہادر روحوں کے لیے ناقابل برداشت قرار دیا، جو ہر چھ ماہ بعد اس تکلیف دہ عمل سے گزرتے ہیں۔”

گریفتھس نے اس بات کا مطالبہ کیا کہ کم سے کم ایک سال کے لیے مزید کراسنگ کھولنے کی اجازت دی جانی چاہیے تھی۔

ترکی اور شام میں آٹھ فروری کو 7.8 کی شدت کے زلزلہ آیا تھا، جس سے دسیوں ہزار افراد ہلاک ہو ئے تھے۔ اس وقت شام کے صدر اسد نے دو اضافی امدادی گزرگاہیں کھولنے پر اتفاق کیا تھا۔

لیکن اب تک ایسا ہوا نہیں اور تب سے ملک میں امدادی سامان لے کر داخل ہونے والے 3700 ٹرکوں میں سے بیشتر باب الحوا کی کراسنگ کے ذریعے ہی پہنچے۔ فی الوقت صرف دو راستے کھلے ہیں اور وہ بھی ایک ماہ سے کچھ زیادہ عرصے کے اندر ہی بند ہونے والے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں