اسرائیل، حماس لڑائی: پاکستان کا ‘محتاط ردِعمل’ کیا ظاہر کرتا ہے؟

کراچی (ڈیلی اردو/وی او اے) حماس کے اسرائیل پر حملے کے بعد جہاں ماہرین عالمی منظرنامے پر تبدیلیوں کا امکان ظاہر کر رہے ہیں تو وہیں بعض ماہرین کے مطابق سعودی عرب اور اسرائیل کو قریب لانے کی کوششوں کو بھی دھچکہ لگا ہے۔ ایسے میں بعض مبصرین پاکستان کے محتاط ردِعمل پر بھی بات کر رہے ہیں۔

گزشتہ ماہ اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے دوران اسرائیلی وزیرِ خارجہ نے دعویٰ کیا تھا کہ اگر سعودی عرب ‘ابراہم اکارڈ’ میں شامل ہو جاتا ہے تو چھ یا سات مسلم ممالک بھی اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کر سکتے ہیں۔

امریکہ کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے 2020 میں شروع کیے گئے ‘ابراہم اکارڈ’ کے تحت اب تک متحدہ عرب امارات، بحرین اور مراکش اسرائیل سے تعلقات بحال کر چکے ہیں۔

اسرائیلی وزیرِ خارجہ ایلی کوہن نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ اقوامِ متحدہ کے اجلاس کے دوران اُن کی کئی مسلمان ممالک کے رہنماؤں سے ملاقات ہوئی جنہوں نے تاحال اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا۔

پاکستان نے 1948 سے لے کر اب تک اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا اور نہ ہی دونوں ملکوں کے سفارتی تعلقات ہیں۔ لیکن سعودی عرب اور اسرائیل کو قریب لانے کی کوششوں کے دوران پاکستان میں بھی یہ چہ میگوئیاں جاری تھیں کہ اگر سعودی عرب نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کر لیے تو پاکستان بھی ایسا سوچ سکتا ہے۔

سعودی عرب، اسرائیل مذاکرات اور پاکستان

ماہرین کا کہنا ہے کہ سعودی عرب اور اسرائیلیوں کے درمیان تعلقات کی کوششوں نے فلسطینیوں بالخصوص حماس میں اس خوف کو جنم دیا تھا کہ خطے میں کسی ممکنہ اتحاد اور سیکیورٹی مفادات کے درمیان فلسطین کا تنازع بھلا دیا جائے گا۔

پاکستان کے سابق سفارت کار عاقل ندیم کہتے ہیں کہ حماس نے اسرائیل پر حملے کے ذریعے ‘ابراہم اکارڈ’ کے عمل کو سبوتاژ کر دیا ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ اس صورتِ حال کے پاکستان پر بھی اثرات مرتب ہوں گے۔

اُن کے بقول پاکستان میں یہ تاثر ہے کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لیے پاکستان پر خلیجی تعاون کونسل (GCC) کے ممالک خصوصاً سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات دباؤ ڈال سکتے ہیں۔

اُن کے بقول تقریباً 40 لاکھ پاکستانی سعودی عرب اور امارات میں مقیم ہیں، لہذٰا دونوں ملکوں کے ساتھ تعلقات استوار رکھنا پاکستان کے لیے ضروری ہے۔

عاقل ندیم کے مطابق دونوں ممالک پاکستانی معیشت کو سہارا دینے کے لیے کئی بار قرض بھی دے چکے ہیں۔

‘ضروری نہیں کہ اسلام آباد اور تل ابیب کے تعلقات قائم ہوں’

امریکہ کی بوسٹن یونیورسٹی میں بین الاقوامی تعلقات کے ماہر پروفیسر ڈاکٹر عادل نجم کہتے ہیں کہ اگر سعودی عرب کے ساتھ اسرائیل کے تعلقات قائم ہوتے ہیں تو یہ ضروری نہیں کہ پاکستان کے بھی اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم ہو جائیں گے۔

ان کے بقول ’’اگر اس معاہدے میں فلسطینیوں کو کچھ نہیں ملتا تو اسے ریاض اور اسلام آباد میں عوامی سطح پر قبولیت نہیں ملے گی۔”

عادل نجم نے کہا کہ یہ دیکھنا ہو گا کہ سعودی عرب پاکستان سے کیا چاہتا ہے اور اس کی جانب سے کس قسم کا دباؤ آتا ہے۔

ان کے بقول خلیجی دوست ممالک پر انحصار کرتے ہوئے کمزور معاشی صورتِ حال میں پاکستان کے لیے فلسطین کے معاملے پر اپنے اصولی مؤقف پر قائم رہنا مشکل ہو گا۔

پاکستان میں عوامی ردِعمل کیسا ہے؟

ماہرین کا کہنا ہے کہ مسجدِ اقصٰی کے ساتھ جذباتی وابستگی کی وجہ سے پاکستانی عوام کے اندر اس معاملے میں حساسیت پائی جاتی ہے جس کا مذہبی جماعتیں فائدہ اُٹھاتی ہیں۔

بعض ماہرین کے مطابق حماس، اسرائیل لڑائی کے معاملے پر پاکستان میں عوامی ردِعمل محدود نظر آ رہا ہے۔ گو کہ بعض مذہبی جماعتوں نے جمعے کو فلسطینیوں کی حمایت میں ریلیاں نکالنے کا اعلان کیا ہے، لیکن ملک میں بڑے پیمانے پر ریلیاں اور جلوس نظر نہیں آئے۔

پاکستان میں اسلامی جماعتوں اور تحریکوں کا مطالعہ کرنے والے کراچی میں مقیم محقق شمس الدین شگری کہتے ہیں کہ ’’پاکستان کی مذہبی جماعتوں کی خاموشی کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ وہ اسرائیل پر حملوں کے بعد وہ حماس کو ہیرو کے طور پر دیکھتی ہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ ماضی میں پاکستان میں عالمی واقعات خصوصاً مشرق وسطی کے معاملات میں ’’جبر اور ظلم‘‘ کی بنیاد پر پاکستان کی مذہبی جماعتیں ملک میں بڑے بڑے احتجاج منعقد کرتی تھیں۔

ان کے بقول ’’اس بار پاکستان میں مذہبی جماعتیں حماس کے حملوں کو ظلم و جبر کے بجائے جیت قرار دے رہی ہیں۔ البتہ اسرائیل کی جانب سے غزہ پر حملوں کے بعد بڑے پیمانے پر احتجاج دیکھنے میں نہیں آیا۔”

جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کا اسرائیل حماس تنازع کے حوالے سے جاری بیان شمس الدین شگری کے خیالات کی تائید کرتا ہے۔

مولانا فضل الرحمٰن نے ایک اعلامیے میں کہا کہ “فلسطینی مجاہدین کا اسرائیل پر حملہ تاریخی کامیابی اور تاریخی معرکہ ہے جس پر وہ فلسطینی عوام کو مبارک باد پیش کرتے ہیں۔”

انہوں نے جمعے (13 اکتوبر) کو ملک بھر میں ہر ضلع کی سطح پر اہل فلسطین کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کرنے کے لیے مظاہروں کا اعلان بھی کیا۔

تجزیہ کاروں نے پاکستان کی عوامی رائے میں بین الاقوامی تنازعات کے بارے میں بھی تبدیلی کا نوٹس کیا ہے جس کی متعدد وجوہات ہے۔

پاکستان کے سابق سفیر عاقل ندیم نے کہا کہ پاکستان نے اسرائیل فلسطین مسئلے کے بارے میں ایک متوازن رویہ رکھا ہے اور فلسطین کے مسئلے کو مسئلہ کشمیر جتنی اہمیت دے رکھی ہے۔

ان کے بقول ’’عرب دنیا یا فلسطین نے کبھی بھی مسئلہ کشمیر پر پاکستان کے مؤقف کی حمایت نہیں کی۔‘‘

ان کے خیال میں ’’پاکستانی عوام شعوری طور پر یہ دیکھ رہے ہیں کہ اسرائیل کے ساتھ اصل تنازع عربوں کا ہے مگر عرب ممالک ہی اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کر رہے ہیں۔”

اسلام آباد میں قائم انٹرنیشنل ریسرچ کونسل برائے مذہبی اُمور نامی تھنک ٹینک کے سربراہ محمد اسرار مدنی کہتے ہیں کہ پاکستانیوں کی لاتعلقی ظاہر کرتی ہے کہ وہ بین الاقوامی تنازعات کے بجائے اپنے ملک اور خطے میں جاری تنازعات کے خاتمے کے خواہاں ہے۔

ان کے بقول ’’یہ رجحان افغانستان پر امریکہ کے 20 سال بعد انخلا اور طالبان کے دوبارہ قبضے کے موقع پر دیکھا گیا جب پاکستانی عوام کو پڑوسی ملک میں رونما ہونے والی تبدیلی سے کوئی خاص غرض نہیں تھا۔‘‘

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستانی عوام مذہبی طور پر بھی مختلف نظریات میں تقسیم ہے اور ہر نظریے کے ماننے والے سیاسی گروہوں کے بین الاقوامی خصوصاً مشرقِ وسطی کے تنازعات میں اپنا نقطہ نظر ہے۔

ان کے بقول ’’پاکستان کی اکثریت بریلوی مکتبِ فکر شروع ہی سے مشرق وسطیٰ کے تنازعات سے دور رہی ہے جب کہ سلفی یا اہلِ حدیث مسلک کے گروہ سعودی عرب کی وجہ سے خاموش ہے۔‘‘

ان کا کہنا تھا کہ ’’دیو بندی مکتبِ فکر کی بڑی جماعت جمعیت علمائے اسلام (ف) بھی سعودی عرب سے اچھے تعلقات کی وجہ سے اس طرح بڑے احتجاج نہیں کر رہی البتہ جماعتِ اسلامی اپنے وسائل اور افرادی قوت کے مطابق ریلیاں نکالے گی۔‘‘

ماہرین کہتے ہیں کہ پاکستان عوام کی فلسطینی عوام کے ساتھ حمایت کے تاریخی عوامل ہیں، لہذٰا پاکستان کے لیے اسرائیل کے ساتھ سفارتی روابط قائم کرنے کی کوشش کو عوامی پذیرائی نہیں ملے گی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں