بھارتی کشمیر: فوج کی تحویل میں شہریوں کی ہلاکت کا الزام، آرمی چیف کا دورۂ پونچھ

سرینگر (ڈیلی اردو/وی او اے) بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں عسکریت پسندوں کی بڑھتی ہوئی کارروائیوں کے دوران آرمی چیف جنرل منوج پانڈے نے متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا ہے۔

جموں میں ایک دفاعی ترجمان نے کہا کہ جنرل پانڈے کو پونچھ۔ راجوری میں تعینات فوجی کمانڈروں نے عسکریت پسندوں کے خلاف گزشتہ پانچ روز سے جاری آپریشن کے بارے میں بریفنگ دی۔

ترجمان کے بقول اس موقعے پر جنرل پانڈے نے کہا کہ دہشت گردوں کے خلاف آپریشنز کو پیشہ ورانہ انداز میں انجام دیں اور درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے لیے پُرعزم اور ثابت قدم رہیں۔

علاقے میں جہاں ایک طرف اُن عسکریت پسندوں کو زندہ یا مردہ پکڑنے کے لیے بڑے پیمانے پر فوجی آپریشن جاری ہے جنہوں نے گزشتہ جمعرات کو ڈیرا کی گلی کے مقام پر بھارتی فوج کی 48راشٹریہ رائفلز کی دو گاڑیوں پر چھپ کر حملہ کر کے چار فوجیوں کو ہلاک اور تین کو شدید زخمی کردیا تھا۔ وہیں اس واقعے کے بعد فوج کی حراست میں تین شہریوں کو تشدد کا نشانہ بنا کر موت کے گھاٹ اتارنے پر لوگوں میں شدید غم و غصہ ہے۔

شہریوں کی حراستی اموات کے خلاف پونچھ میں جمعے کو اور اختتامِ ہفتہ بڑے پیمانے پر مظاہرے ہوئے تھے اور اپوزیشن جماعتوں نے فوج اور حکومت پر سخت تنقید کی تھی۔ انسانی حقوق کارکنوں نے بھی اس واقعے پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔

اس دوراں دو ایسی ویڈیوز وائرل ہو گئی تھیں جن میں سے ایک میں فوجیوں کو شہریوں کو بری طرح پیٹتے ہوئے دیکھا جا سکتا تھا جب کہ دوسری ویڈیو میں وردی پوش افراد بعض شہریوں کو ننگا کر کے انہیں ان کی شرم گاہوں (کولہوں) میں سرخ مرچ کا پاؤڈر ڈالتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔

فوج کی حراست میں مبینہ طور پر ٹارچر کے نتیجے میں ہلاک ہونے والے شہریوں 27 سالہ محمد شوکت، 32 سالہ شبیر احمد اور 43 سالہ سفیر احمد کا تعلق ٹوپا پیر نامی گاؤں سے تھا۔ یہ گاؤں اُس مقام سے قلیل فاصلے پر واقع ہے جہاں فوجی گاڑیوں کو عسکریت پسندوں نے ہدف بنایا تھا۔

شہریوں میں غم و غصہ

گاؤں والوں نے پولیس حکام کو بتایا ہے کہ اس حملے کے فوراً بعد فوج کی ایک بھارتی جمعیت ٹوپا پیر میں وارد ہوئی تھی اور پھر شہریوں کو ہراساں کرنے اور کئی ایک کو مارنے پیٹنے لگی تھی۔

پولیس میں درج کی گئی شکایت میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ فوجی ایک درجن سے زیادہ شہریوں کو اپنے ساتھ لے گئی اور اگلے روز ان میں سے تین کو مردہ لوٹا دیا۔ مہلوکین کے رشتے داروں اور دیگر گاؤں والوں کا کہنا تھا کہ جمعے کی شام کو انہیں سونپی گئی نعشوں پر تشدد کے واضح گہرے نشان موجودتھے۔ دس زخمی افراد الگ الگ اسپتالوں میں زیرِ علاج ہیں۔

گاؤں کے سرپنچ نے تصدیق کر دی ہے کہ جن شہریوں کو ویڈیو میں فوجیوں کے ہاتھوں تشدد کا نشانہ بنتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے، ان میں حراست کے دوراں مارے جانے والے تینوں افراد بھی شامل ہیں۔ ان ویڈیو زکے وائرل ہونے کے فوراً بعد حکام نے پونچھ اور راجوری اضلاع میں موبائل انٹرنیٹ سروسز معطل کردی تھیں اور یہ پابندی تاحال جاری ہے۔

پولیس نے فوج کی حراست میں شہریوں کی ہلاکتوں کے اس واقعے کے سلسلے میں ایف آئی آر درج کر کے تحقیقات شروع کر دی ہے۔

اس بات کا پتا لگانے کی بھی کوشش کی جا رہی ہے کہ یہ ویڈیوز جو فوج کے لیے بدنامی اور حکومت کے لیے سبکی کا باعث بن گئے ہیں کس نے اٹھائے تھے اور یہ کیسے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر آ گئے تھے۔

تحقیقات کا حکم

بھارتی فوج نے شہریوں کی ہلاکتوں کی ‘داخلی تحقیقات’ کا حکم دے دیا ہے اور اس کے ساتھ ہی علاقے میں تعینات راشٹریہ رائفلز کے بریگیڈ کمانڈر بریگیڈئر پدم آچاریہ اور تین دوسرے سینئر افسروں کو وہاں سے ہٹا دیا ہے۔

اس سے پہلے بھارتی فوج نے کہا تھا کہ وہ جموں وکشمیر انتظامیہ کے اس واقعے کی تحقیقات کرانے کے اعلان کی حمایت کرتی ہے اور اس سلسلے میں متعلقہ حکام کو پورا تعاون دے گی۔

تاہم اس نے یہ بھی کہا تھا کہ جمعرات کو پونچھ کے ڈیرا کی گلی کے مقام پر دو فوجی گاڑیوں پر حملہ کرنے والے عسکریت پسندوں کو ڈھونڈ نکالنے کے لیے وسیع پیمانے پر شروع کیا گیا آپریشن منطقی انجام تک پہنچنے تک جاری رہے گا۔

شہریوں کی ہلاکتوں کے خلاف لوگوں میں بڑھے ہوئے غم و غصے اور اس سلسلے میں مختلف اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے جاری کیے جارہے بیانات اور چند ایک کی طرف سے احتجاجی مظاہرے کرنے اور جلوس نکالنے کے بیچ جموں و کشمیر انتظامیہ نے یہ اعلان کیا تھا کہ اس واقعے پر حاکمِ مقتدر نے ‘قانونی کارروائی’ شروع کردی ہے۔ اس نے یہ بھی کہا تھاکہ مارے گیے افراد کے لواحقین کو معاوضہ دیا جائے گا اور ہر کنبے کے ایک فرد کو سرکاری ملازمت میں لیا جائے گا۔

اس دوراں سابق وزیرِ اعلیٰ اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی صدر محبوبہ مفتی نے کہا ہے کہ وہ مقامی لوگوں سے یکجہتی کا اظہار کرنے اور علاقے کی صورتِ حال کا جائزہ لینے کے لیے پیر کو پونچھ جانے والی تھیں۔ لیکن پولیس نے انہیں سرینگر میں ان کے گھر میں نظر بند کر دیا ہے۔

میڈیا کے ساتھ ایک ٹیلی پریس کانفرنس میں انہوں نے کہا کہ انہیں نظر بند کرنے کا مقصد شہریوں کی حراستی ہلاکتوں کے خلاف کشمیریوں کی آواز کو دبانا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پونچھ سے انتہائی پریشان کن اطلاعات آرہی ہیں۔ انہوں نے کسی ایک خاص علاقے سے ہی گرفتاریاں عمل میں نہیں لائی ہیں بلکہ تھنہ منڈی، پرگائی اور دیگر قریبی دیہات میں بھی شہریوں کی پکڑ دھکڑ جاری ہے۔ لوگوں کے ساتھ برتاؤ اس قدر سخت ہے کہا کہ ان میں سے بہت سارے اسپتالوں میں نازک حالت میں داخل کرائے گیے ہیں۔

ان کے ان الزامات پر حکومت، فوج یا پولیس نے تاحال کوئی ردِ عمل ظاہر نہیں کیا ہے۔

سابق وزیرِ اعلیٰ اور نیشنل کانفرنس کی صدر ڈاکٹر فاروق عبد اللہ نے کہا تھا کہ پونچھ میں پیش آنے والے واقعات حکومت کے اس دعوے کی نفی کرتے ہیں کہ جموں و کشمیر میں امن لوٹ آیا ہے۔

انہوں نے کہا تھا کہ “وہ مسلسل جھوٹ بول رہے ہیں اور یہاں حالات کے معمول پر آنے اور یہ کہ سب کچھ ٹھیک ٹھاک چل رہا ہے کے بارے میں دنیا کو جو کہانیاں سنارہے ہیں وہ گمراہ کن اور محض ایک پروپاگنڈا ہیں۔ دہشت گردی ختم نہیں ہوئی ہے۔ اکیلے فوج اورپولیس اس کو ختم نہیں کرسکتی ہیں۔ دہشت گردی کی بنیادی وجوہات کیا ہیں اور اس مسئلے کو کیسے حل کیا جاسکتا ہے اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔”

تاہم جموں و کشمیر کی پولیس کے سربراہ رشمی راجن سوین نے ایک بار پھر اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ ان کے بقول ہماری جنگ آخری دہشت گرد کا خاتمہ کرنے اور ان تمام لوگوں کو کیفرِ کردار تک پہنچانے تک جاری رہے گی جو تشدد اور تباہی کے ذمہ دار ہیں۔

پولیس نے اپنے ایک سابق افسر محمد شفیع میر کو اتوار کے روز شمال مغربی ضلع بارہمولہ میں اپنے آبائی گاؤں گانٹہ مولہ کی مسجد میں فجر کی اذان دینے کے دوراں ہلاک کرنے والے افراد کی تلاش میں کئی جگہوں پر چھاپے ڈالے ہیں۔

اس واقعے پر وادیٔ کشمیر میں شدید غم و غصہ ہے اور سیاسی، سماجی اور مذہبی تنظیموں نے سابق افسر کو مسجد کے اندر اور وہ بھی اُس وقت جب وہ اذان دے رہے تھے بے دری سے قتل کرنے پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور اسے پریشان کن اور ناقابلِ قبول گھناؤنی حرکت قرار دیا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں