یمن میں خانہ جنگی کا خاتمہ، حکومت کا اقوامِ متحدہ کے اقدامات کا خیر مقدم

صنعا (ڈیلی اردو/اے ایف پی/وی او اے) یمن کی بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ حکومت نے اقوامِ متحدہ کی ملک میں خانہ جنگی کے خاتمے کی کوششوں کا خیر مقدم کیا ہے۔

اقوامِ متحدہ کی کوششوں سے لڑائی میں مصروف حکومت اور دارالحکومت صنعا سمیت ملک کے بڑی حصے پر قابض حوثی باغیوں نے جنگ بندی کے مزید اقدامات کی حمایت کا اعادہ کیا تھا۔

جزیرہ نما عرب کے غریب ترین ملک یمن میں تنازع اس وقت شروع ہو تھا جب نو سال پہلے 2014 میں حوثی باغیوں نے دارالحکومت صنعا پر قبضہ کر لیا تھا۔ حوثی باغیوں کو ایران کی پشت پناہی حاصل ہے۔

اسی برس سعودی عرب نے یمن کی بین الاقوامی تسلیم شدہ حکومت کی بحالی کے لیے فوجی مداخلت کی۔ سعودی عرب کو دیگر عرب ممالک کی حمایت حاصل تھی۔

یمن میں جنگ کے دوران سعودی عرب نے حوثی باغیوں کو نشانہ بنایا جب کہ حوثی باغیوں کی جانب سے سعودی عرب کے اندر دنیا کی سب سے بڑی آئل ریفائنری پر ڈرون حملے سمیت کئی تنصیبات کو نشانہ بنانے کی رپورٹس سامنے آئیں۔

یمن میں جاری خانہ جنگی کے سبب ہونے والی تباہی کو روکنے کے لیے اقوامِ متحدہ کی کوششوں سے 2022 میں ہونے والا جنگ بندی کا معاہدہ گزشتہ برس اپریل سے اکتوبر تک برقرار رہا۔ اکتوبر 2022 میں جنگ بندی کا معاہدہ تو ختم ہو گیا لیکن اس کے بعد بھی بڑے پیمانے پر لڑائی دوبارہ شروع نہیں ہوئی۔

دو دن قبل اقوامِ متحدہ کے یمن کے لیے خصوصی مندوب ہانس گرانڈبرگ کے مطابق فریقین جنگ بندی اور اقوامِ متحدہ کے امن عمل کے لیے رضا مند ہیں۔

یمن کی حکومت کا کہنا ہے کہ وہ اقوامِ متحدہ کے یمن کے لیے خصوصی مندوب کے بیان کا خیر مقدم کرتی ہے۔ ان کی کوشش سے اقوامِ متحدہ نے جنگ کے خاتمے کے لیے لائحہ عمل ترتیب دیا ہے۔

یمن کی حکومت نے بیان میں مزید کہا کہ وہ امن عمل کو آگے بڑھانے میں سعودی عرب اور عمان کی کوششوں کے بھی شکر گزار ہیں۔

خبر رساں ادارے ‘اے ایف پی’ کے مطابق یورپی ملک بیلجیئم کے شہر برسلز میں قائم تھنک ٹینک ‘انٹرنیشنلز کرائسز گروپ’ سے وابستہ تجزیہ کار احمد ناگی کہتے ہیں کہ امن عمل پر عمل درآمد میں اقوامِ متحدہ مرکزی کردار ادا کر سکتا ہے۔

ان کے بقول اقوامِ متحدہ نے بھی اپنے بیان میں کہا ہے کہ امن عمل کے حوالے سے کئی ماہ سے مذاکرات کا عمل جاری تھا۔

انہوں نے مزید کہا کہ اقوامِ متحدہ کے بیان سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ مذاکرات میں اسے اہمیت حاصل ہے جب کہ سعودی عرب نے اپنے قدم پیچھے ہٹا لیے ہیں تاکہ اقوامِ متحدہ مستقبل کے سیاسی عمل میں کردار ادا کر سکے۔

سعودی عرب، پائیدار امن کی کمزور امید کے باوجود، خود کو تنازع سے نکالنے کی کوشش کر رہا ہے۔

متعدد مبصرین زیادہ پر امید نہیں ہیں کہ سعودی عرب کے فوجی کردار میں کمی کے باوجود یمن میں قیام امن ہو سکے کیوں کہ ملک میں مذہبی، جغرافیائی اور سیاسی اعتبار سے معاشرہ شدید تقسیم کا شکار ہے۔

واضح رہے کہ اقوامِ متحدہ کی یمن میں امن عمل کی کوششوں کی خبریں ایسے موقع پر سامنے آئی ہیں جب دارالحکومت صنعا پر قابض حوثی باغیوں نے ملک کی ساحلی پٹی کے ساتھ واقع بحیرہ احمر میں اسرائیل سے تعلق رکھنے والے بحری جہازوں کو نشانہ بنانا شروع کیا ہے۔

یمن کے حوثی باغیوں نے کہا ہے کہ وہ بحیرہ احمر میں اس وقت تک اسرائیل سے کسی بھی قسم کا تعلق رکھنے والے بحری جہازوں کو نشانہ بنائیں گے جب تک غزہ میں اس کی عسکری کارروائیوں کا خاتمہ نہیں ہو جاتا۔

واضح رہے کہ سات اکتوبر کو حماس نے اسرائیل پر زمین، فضا اور بحری راستے سے ایک ساتھ حملے کیے تھے۔ اسرائیلی حکومت کے مطابق غزہ سے کیے گئے حماس کے اس حملے میں 1200 افراد ہلاک ہوئے تھے جن میں عام شہری بھی شامل تھے۔

حماس کے اس حملے کے جواب میں اسرائیل نے اعلان جنگ کرتے ہوئے غزہ کا محاصرہ کر لیا اور اس وقت سے وہ فضا سے بمباری اور زمینی کارروائی میں مصروف ہے۔ اس دوران حماس کے زیرِ انتظام غزہ کی وزارتِ صحت کے مطابق لگ بھگ 20 ہزار فلسطینیوں کی اموات ہوئی ہیں جن میں اکثریت بچوں اور خواتین کی ہے۔

اس بڑے پیمانے پر ہونے والی اموات کی وجہ سے دنیا بھر سے ردعمل سامنے آیا ہے۔

امریکہ نے الزام عائد کیا ہے کہ بحیرۂ احمر (ریڈ سی) میں نجی بحری جہازوں پر حوثیوں کے حملوں میں ایران بھی ملوث ہے۔

وائٹ ہاؤس نے جمعے کو جاری ایک بیان میں کہا ہے کہ ایران نے یمن کے حوثی باغیوں کو نہ صرف ڈرونز اور میزائل فراہم کیے ہیں بلکہ وہ ان کے ساتھ خفیہ معلومات کا تبادلہ بھی کرتا ہے۔

وائٹ ہاؤس کے مطابق حوثی سمندر میں نگرانی کے لیے ایران کے فراہم کردہ نظام پر انحصار کرتے ہیں۔

واضح رہے کہ یمن کے ایک حصے پر قابض حوثی باغیوں نے گزشتہ ماہ اسرائیل سے تعلق کے شبہے میں بحیرۂ احمر میں ایک نجی بحری جہاز کو قبضے میں لے کر عملے کو یرغمال بنا لیا تھا۔

حوثی نومبر سے لے کر اب تک بحیرۂ احمر میں بیلسٹک میزائلوں سے کئی بحری جہازوں کو نشانہ بنا چکے ہیں۔

حوثیوں کا کہنا ہے کہ ان کے حملے فلسطینیوں سے اظہارِ یکجہتی کے لیے ہیں۔

بحیرۂ احمر میں بحری جہازوں کی سیکیورٹی کے لیے 18 دسمبر کو امریکہ نے 10 ملکوں پر مشتمل نیول ٹاسک فورس کے قیام کا اعلان کیا۔

امریکی تھنک ٹینک واشنگٹن انسٹی ٹیوٹ فار نیئر ایسٹ پالیسی سے وابستہ مائیکل نائٹ نے اپنے حالیہ تحقیقی مقالے میں کہا ہے کہ حوثی ایران کے حکمرانوں کے تابع ہیں۔

ان کے بقول امریکہ کو یہ سوچنا چاہیے کہ حوثی شمالی کوریا کی طرح ہیں جو جارح اور مسلح ہیں۔ یہی نہیں وہ امریکہ کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں اور خطے میں اہم جگہ پر بیٹھے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں