بھارتی کشمیر: ایل او سی سے متصل علاقے پیرپنجال میں انتہا پسندی میں اضافہ انٹیلیجنس کوتاہی کا نتیجہ ہے؟

سرینگر (ڈیلی اردو/بی بی سی) گھنے جنگلات اور ناقابل رسائی پہاڑوں میں گھرا انڈیا کے زیرِ انتظام جموں و کشمیر کے مرکزی علاقے کے پونچھ اور راجوری اضلاع میں انڈین فوج پر عسکریت پسندوں کے تازہ حملوں کے بعد یہ خطہ ایک بار پھر سرخیوں میں ہے۔

گذشتہ دو سالوں سے یہ علاقہ شدت پسندوں کے حملوں اور سکیورٹی فورسز اور شدت پسندوں کے درمیان ہونے والے مقابلوں کی وجہ سے خبروں میں رہا ہے۔

اس سال 21 دسمبر کو انتہا پسندوں نے گھات لگا کر انڈین فوج کی دو گاڑیوں کو نشانہ بنایا تھا۔ اس حملے میں چار انڈین فوجی ہلاک اور دو زخمی ہو گئے تھے۔

سنہ 2021 سے انتہا پسندوں نے جموں خطے کے پونچھ راجوری علاقے میں فوج اور عام لوگوں پر کئی حملے کیے ہیں۔

فوج پر حملے کے بعد پوچھ گچھ کے لیے بلائے گئے آٹھ شہریوں میں سے تین فوجی کیمپ میں مبینہ تشدد کے بعد ہلاک ہو گئے۔

وزیرِ دفاع راج ناتھ سنگھ نے ان شہریوں کے گھر پہنچ کر افسوس کا اظہار کیا ہے اور فوج کو بھی پروفیشنل رہنے کو کہا ہے۔ مقامی پولیس فوجی کیمپ میں مبینہ تشدد سے شہریوں کی ہلاکت کی تحقیقات کر رہی ہے۔

پونچھ راجوری علاقے کے بارے میں ہم کیا جانتے ہیں؟

پونچھ اور راجوری جموں خطے کے دو مختلف اضلاع ہیں، جنھیں پیرپنجال بھی کہا جاتا ہے۔ یہ گھنے جنگلوں سے گھرا ہوا علاقہ ہے جہاں لوگ ناقابل رسائی اونچے پہاڑوں کے درمیان رہتے ہیں۔

پونچھ میں مسلمانوں کی آبادی تقریباً 90 فیصد ہے جبکہ راجوری میں یہ تعداد 56 فیصد ہے۔

انڈیا اور پاکستان کے درمیان لائن آف کنٹرول کے قریب ان علاقوں میں عام لوگوں کو ہمیشہ تشدد کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

سرینگر سے پونچھ کا فاصلہ تقریباً 140 کلومیٹر ہے۔

سال 2021 سے پہلے ان علاقوں میں انڈیا اور پاکستان کے درمیان جنگ بندی کی خلاف ورزیوں کے واقعات باقاعدگی سے رپورٹ ہو رہے تھے۔ دونوں ممالک اس کا ذمہ دار ایک دوسرے کو ٹھہراتے رہے ہیں۔

بعض اوقات عام لوگوں کو بھی پاکستان انڈیا سرحد پر فائرنگ کا نشانہ بننا پڑتا ہے۔

دونوں ممالک انڈیا کے زیرِ انتظام جموں و کشمیر پر دو جنگیں بھی لڑ چکے ہیں۔ دونوں اس پورے علاقے پر اپنے اپنے دعوے کرتے ہیں لیکن مختلف حصوں کو کنٹرول کرتے ہیں۔

انڈیا اور پاکستان کے درمیان سنہ 2021 میں دوبارہ جنگ بندی ہوئی تھی اور اس کے بعد سے جموں و کشمیر کے پیرپنجال اور دیگر علاقوں میں لائن آف کنٹرول پر خاموشی ہے۔ لیکن حالیہ دنوں میں پیرپنجال کے علاقے میں شدت پسندوں کے حملوں اور مقابلوں میں اضافہ ہونا شروع ہو گیا ہے۔

گوجر، پہاڑی اور بکروال برادریوں کے لوگ پونچھ اور راجوری میں رہتے ہیں۔ اس علاقے میں رہنے والی زیادہ تر آبادی پہاڑی زبان بولتی ہے۔

یہاں کی آبادی دس لاکھ سے زیادہ ہے۔ یہاں رہنے والے زیادہ تر لوگوں کے رشتہ دار پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں رہتے ہیں۔

انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کا یہ علاقہ پیر پنجال کہلاتا ہے جبکہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کا مخالف حصہ وادی نیلم کہلاتا ہے۔

دونوں ممالک کے درمیان 200 کلومیٹر لمبی اور 30 کلومیٹر چوڑی لائن آف کنٹرول ہے۔ اس کا شمار دنیا کی خطرناک ترین سرحدوں میں ہوتا ہے۔

پیرپنجال کے علاقے کے اونچے پہاڑ، گھنے جنگلات اور ناقابل رسائی سڑکیں انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر کے جنوبی حصوں سے جا ملتی ہیں۔

بعض سیکورٹی حکام کا کہنا ہے کہ سرحد کے اس طرف سے دراندازی کرنے والے انتہا پسند آسانی سے جنوبی کشمیر اور پیر پنجال کی پہاڑیوں کے راستوں کو استعمال کرتے ہوئے پیر پنجال سے جنوبی کشمیر پہنچ جاتے ہیں۔

کیا پیرپنجال میں انٹیلی جنس گرڈ کی طرف سے کوئی کوتاہی ہوئی ہے؟

پیرپنجال کے علاقے میں شدت پسندی کے مسلسل واقعات کے بعد اس خطے میں سکیورٹی انٹیلی جنس پر سوالات اٹھ رہے ہیں۔

پیرپنجال میں انتہا پسندوں کے بڑھتے ہوئے حملوں کے سوال پر جموں و کشمیر پولیس کے سابق ڈائریکٹر جنرل شیش پال وید کہتے ہیں کہ انٹیلی جنس کی کمزوری کسی نہ کسی شکل میں نظر آتی ہے۔ جس کی وجہ سے فوج پر ایسے حملے ہو رہے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ’اس سال پیرپنجال میں آرمی پر چار بڑے حملے ہوئے اور آرمی کو جانی نقصان اٹھانا پڑا۔ اگر علاقے میں انٹیلیجنس گرڈ مضبوط ہوتا ہے تو ایسے حملے نہ ہوتے۔

’دراندازی جہاں سے ہوئی ہے اگر وہاں پر نظر ہوتی تو شاید اتنے بڑے حملے نہ ہوتے اور فوجیوں کی جانیں نہ جاتیں، ایسے واقعات تب ہوتے ہیں جب آپ کے پاس کچی ہوئی معلومات ہوں۔‘

پیرپنجال کا علاقہ گذشتہ پندرہ سالوں میں انتہا پسندی سے پاک ہو چکا تھا۔

میں جب کشمیر میں انڈیا مخالف پُرتشدد تحریک شروع ہوئی تو اس کے فوراً بعد پیر پنجال میں سنہ 1989 میں بھی تشدد کے شعلے بھڑک اٹھے تھے۔ یہ علاقہ طویل عرصے تک شدت پسندی کا شکار رہا۔

تاہم سنہ 2007 تک سکیورٹی فورسز نے اس علاقے سے انتہا پسندی کا خاتمہ کر دیا تھا۔ اس کے بعد سے اب تک بین الاقوامی سرحد پر دراندازی کے کچھ واقعات ہوتے رہے۔

شیشپال وید کا کہنا ہے کہ پچھلے دو سالوں میں اس علاقے میں 28 شدت پسند مارے جا چکے ہیں اور 20-25 ابھی باقی ہیں، تو اس کا مطلب ہے کہ پچاس سے زیادہ شدت پسند اس علاقے میں گھس چکے ہیں۔ سرحد پار سے دراندازی ہوئی ہے، اس کا احتساب ہونا چاہیے۔

انڈین فوج کے شمالی کمانڈر اوپیندر دویدی نے 24 نومبر 2023 کو کہا تھا کہ جموں کے پیرپنجال علاقے میں اب بھی 20 سے 25 شدت پسند سرگرم ہیں۔

انڈین فوج کے سابق جنرل آفیسر کمانڈنگ (ناردرن کمانڈ) دیپیندر سنگھ ہوڈا کا بھی ماننا ہے کہ پیر پنجال کے علاقے کے سخت ڈھانچے کی وجہ سے وہاں مزید سیکورٹی فورسز کو تعینات کیا جانا چاہیے اور انٹیلی جنس گرڈ کو مضبوط کیا جانا چاہیے۔

ہوڈا کا یہ بھی کہنا ہے کہ ’جس طرح سے فوج پر دو بار گھات لگا کر حملہ کیا گیا ہے، ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا اور اس طرح کے حملے ہماری کمزوری کو ظاہر کرتے ہیں۔‘

وہ بتاتے ہیں کہ ’بعض اوقات یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہاں کچھ نہیں ہو رہا ہے اور آپ کا پروٹوکول، طریقہ کار اور مشقیں کمزور ہو جاتی ہیں۔ یہ سمجھا جاتا ہے کہ کیوں کہ کچھ نہیں ہو رہا، سب کچھ ٹھیک ہے۔‘

کیا یہاں کوئی اصلاحی کام ہو رہا ہے؟

انتہا پسندی کے خلاف کام کرنے والے جموں و کشمیر پولیس کے ایک سینیئر افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ پیرپنجال کو 15 سال قبل انتہا پسندی سے آزاد کروایا گیا تھا اور اب اس علاقے میں دوبارہ شدت پسندی کے واقعات ہو رہے ہیں۔

انھوں نے یہ بھی کہا کہ علاقے میں مزید کام کرنے کی ضرورت ہے اور انتہا پسندی کو ایک بار پھر پنپنے سے روکنا ہو گا۔

شیشپال وید بھی کچھ ایسا ہی مانتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پیرپنجال کا علاقہ گذشتہ پندرہ سالوں میں تشدد سے پاک رہا ہے لیکن اب پھر وہی کچھ دیکھنے کو مل رہا ہے جو ڈیڑھ دہائی قبل ہو رہا تھا۔

دیپیندر سنگھ ہوڈا پیرپنجال کی موجودہ تصویر کو اس طرح بیان کرتے ہیں ’ہم یہ نہیں بتا سکتے کہ زمین پر کیا ہوا اور کیسے ہوا لیکن جس طرح ہم نے یہاں دہشت گردی کو ختم کیا، اس میں مقامی بکروال اور گجر برادری کا بڑا کردار تھا۔

’اگر اب وہاں دہشت گردی دوبارہ سر اٹھا رہی ہے تو ہمیں دوبارہ مقامی کمیونٹیز تک پہنچنے کے بارے میں سوچنا پڑے گا۔‘

ہوڈا کا ماننا ہے کہ کشمیر کے مقابلے پیرپنجال میں سکیورٹی فورسز اور انٹیلیجنس کی موجودگی کم ہے جس کی وجہ سے انتہا پسندوں نے اس کا فائدہ اٹھایا اور فوج کو نقصان اٹھانا پڑا۔

ہوڈا نے یہ بھی کہا کہ اگر اس طرح کے واقعات کو روکنا ہے تو وہاں کی انٹیلیجنس کو بہتر کرنا ہو گا۔ ایک انگریزی فقرہ کا استعمال کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں یہ ’ڈرائینگ بورڈ پر واپس جانے‘ کا معاملہ ہے یعنی کامیاب ہونے کے لیے آپ کو دوبارہ تیاری کرنی ہو گی۔

ہوڈا کا کہنا ہے کہ کشمیر میں میدانی علاقے ہیں لیکن کشمیر کے مقابلے میں پیر پنجال کا علاقہ ناہموار پہاڑیوں والا علاقہ ہے۔ یہاں ہر جگہ تک رسائی حاصل کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’پیرپنجال ایک مشکل علاقہ ہے، یہاں سکیورٹی فورسز کی تعداد بھی کم ہے۔ ان حالات میں کوئی بھی معلومات نکالنا مشکل ہے۔ تمام دیہات کا دورہ کرنا اور مقامی لوگوں سے ملنا آسان نہیں ہے۔‘

انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں انتہا پسندی اور تشدد کے واقعات

پانچ اگست 2019 کو جموں و کشمیر سے آرٹیکل 370 ہٹائے جانے کے بعد کشمیر میں انتہا پسندی اور علیحدگی پسندی کے خلاف بڑے پیمانے پر مہم چل رہی ہے۔

اس مہم کے ذریعے سکیورٹی فورسز انتہا پسندی پر قابو پانے میں کافی حد تک کامیاب ہوئی ہیں۔

سکیورٹی ایجنسیوں پر کشمیر میں خاموشی کے حوالے سے سخت کارروائی کرنے کا الزام لگایا جا رہا ہے۔

تاہم کشمیر میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ جاری ہے۔ گذشتہ دو ماہ میں جموں و کشمیر پولیس کے تین اہلکاروں کو نشانہ بنا کر ہلاک کیا گیا۔

پچھلے سال کشمیر میں کام کرنے والے بہت سے کشمیری پنڈتوں، کشمیر میں انڈیا کے دوسرے علاقوں سے آنے والے مزدوروں اور سرکاری ملازمین کو گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔

سال 2019 میں آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد شروع ہونے والا پتھراؤ اور ہڑتالوں کا سلسلہ رک گیا ہے اور سکیورٹی فورسز اور انتہا پسندوں کے درمیان تصادم کے واقعات میں بھی کمی آئی ہے۔

شیشپال وید کا کہنا ہے کہ کشمیر میں جس طرح انتہا پسندی پر قابو پایا گیا ہے اسے برقرار رکھنے کے لیے دباؤ برقرار رکھنا ہو گا تب ہی کشمیر میں حالات قابو میں رہ سکتے ہیں۔

اکتوبر 2023 میں اس وقت کے پولیس ڈائریکٹر جنرل دلباغ سنگھ نے کہا تھا کہ 2010 کے مقابلے میں 2023 میں اب تک کشمیر کے 10 مقامی نوجوانوں نے انتہا پسند گروپوں میں شمولیت اختیار کی تھی جب کہ سال 2010 میں 210 نوجوانوں نے ہتھیار اٹھائے تھے۔

حکومتی دعوے کیا ہیں؟

انڈیا کے وزیر داخلہ امت شاہ نے آٹھ دسمبر 2023 کو لوک سبھا میں انڈیا کے زیرِ انتظام جموں و کشمیر میں تشدد کے تازہ ترین اعداد و شمار پیش کیے تھے۔

امت شاہ نے کہا کہ وہ پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ انڈیا کے زیرِ انتظام جموں و کشمیر سے دفعہ 370 ہٹانے سے کشمیر میں تشدد کے واقعات میں کمی آئے گی۔

وزیر داخلہ کی طرف سے پیش کردہ اعداد و شمار کے مطابق ’جموں و کشمیر میں 2004 سے 2008 تک دہشت گردی کے کل 40,164 واقعات رپورٹ ہوئے، جبکہ 2008 سے 2014 کے درمیان 7217 واقعات ہوئے۔ اب یہ کم ہو کر 2197 ہو گئے ہیں۔ یعنی ان اعداد و شمار کے مطابق واقعات میں 70 فیصد کمی آئی ہے۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق سال 2023 میں دراندازی کے 48 واقعات ہوئے ہیں جبکہ 2010 میں یہ تعداد 489 تھی۔

تاہم اس سال وادی کشمیر میں دو بڑے انتہا پسندانہ حملوں میں فوج کے ایک کرنل، ایک میجر اور ایک پولیس افسر کے علاوہ چار فوجی مارے گئے تھے۔

پونچھ اور راجوری کی طرح یہ دونوں واقعات اننت ناگ اور کولگام کے گھنے جنگلات میں پیش آئے۔

پیرپنجال میں شدت پسندی کے واقعات

پیرپنجال کے علاقے میں گذشتہ دو سالوں میں دو درجن سے زائد سکیورٹی فورسز کے اہلکار اور ایک درجن کے قریب شہری مارے جا چکے ہیں۔

اکتوبر 2021 میں پیرپنجال میں 17 دنوں کا طویل ترین مقابلہ ہوا جس میں نو انڈین فوجی مارے گئے۔ پیرپنجال میں طویل عرصے بعد انتہا پسندی کا یہ سب سے بڑا واقعہ تھا۔

اکیس دسمبر 2023 کا واقعہ اکتوبر 2021 کے حملے کے بعد پیرپنجال کے علاقے میں پیش آنے والا چوتھا واقعہ ہے۔

اس سال اب تک جموں خطے میں فوج کے کل 19 جوان مارے جا چکے ہیں۔ گذشتہ دو سالوں میں پیرپنجال میں دو درجن سے زائد فوجی جوان مارے جا چکے ہیں۔

اس سال 20 اپریل کو پانچ فوجی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ اس کے علاوہ پانچ مئی کو پانچ، 22 نومبر کو پانچ اور 21 دسمبر کو چار فوجی اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

ساؤتھ ایشیا ٹیررازم پورٹل کے مطابق سال 2022 کے مقابلے میں سال 2023 میں جموں و کشمیر میں سکیورٹی فورسز کو زیادہ نقصان ہوا ہے۔ ساؤتھ ایشیا ٹیررازم پورٹل کشمیر میں انتہا پسندی کے واقعات سے متعلق ڈیٹا اکٹھا کرتا ہے۔

سال 2022 میں شدت پسندوں کے حملوں اور انسداد انتہا پسندی کی کارروائیوں میں مجموعی طور پر 30 سکیورٹی فورسز کے اہلکار ہلاک ہوئے جبکہ 2023 میں اب تک 33 سکیورٹی اہلکار اپنی جانیں گنوا چکے ہیں۔

تاہم 2018 میں 95 سکیورٹی فورسز کی جانیں گئیں جبکہ 2019 میں 78 سنہ 2020 میں 56 اور سنہ 2021 میں 45 افراد ہلاک ہوئے۔

ساؤتھ ایشیا ٹیررازم پورٹل کے مطابق گذشتہ دو سالوں میں سکیورٹی فورسز پر حملوں کے بعد شدت پسندوں اور سکیورٹی فورسز کی ہلاکتوں کا تناسب تبدیل ہوا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ ’اس کا مطلب ہے کہ سیکیورٹی فورسز پہلے سے زیادہ جانیں گنوا رہی ہیں۔‘

تاہم یہاں یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ پیرپنجال میں ہونے والے تمام واقعات براہِ راست فوج پر حملے نہیں تھے بلکہ سکیورٹی فورسز کو کئی مقامات پر شدت پسندوں کی موجودگی کی اطلاع ملنے کے بعد شدت پسندانہ کارروائیاں شروع کی گئیں جہاں سیکیورٹی فورسز کو نقصان اٹھانا پڑا۔

جنوری 2023 سے نومبر 2023 تک فوج اور پولیس نے لائن آف کنٹرول کے ساتھ اور اندرونی علاقوں میں 27 شدت پسندوں کو ہلاک کیا ہے۔ اس دوران فوج کے 16 جوانوں نے انکاؤنٹر میں اپنی جانیں گنوائیں۔

جنوری 2023 میں، راجوری کے ڈونگرگاؤں میں انتہا پسندوں نے سات شہریوں کو، جو ہندو تھے، قتل کر دیا تھا۔

بہت سے حملوں میں ایسا بھی ہوا کہ حملہ آور انتہا پسندوں کا کوئی سراغ نہیں مل سکا، جیسا کہ 21 دسمبر 2023 کے حملے میں ہو رہا تھا۔

پیپلز اینٹی فاشسٹ فرنٹ (پی اے پی ایف) نے پیرپنجال میں فوج پر حملوں کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔ سیکورٹی ایجنسیوں کا کہنا ہے کہ پی اے پی ایف جیش محمد شدت پسند تنظیم کا محاذ ہے۔

مقامی آبادی کیا کہتی ہے؟

پیرپنجال میں شدت پسندی کے ان واقعات نے عام لوگوں میں ایک قسم کا خوف پیدا کر دیا ہے۔ وہ سمجھ نہیں پا رہے کہ پیرپنجال میں اچانک کیا ہو رہا ہے۔

پونچھ کے ایک مقامی رہنما محفوظ سہروردی نے کہا کہ پیرپنجال میں جس طرح انتہا پسندی پھیل رہی ہے، اس سے عام لوگوں میں شدید خوف پیدا ہوا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ یہ علاقہ ڈیڑھ دہائی سے انتہا پسندی سے پاک ہے اور اب اچانک شدت پسندی کے بڑھتے ہوئے واقعات نے سب کو پریشان کر دیا ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’جب پندرہ سال قبل اس علاقے میں انتہا پسندی اپنے عروج پر تھی، تو یہاں کی مقامی آبادی نے سکیورٹی فورسز کے ساتھ کھڑے ہو کر ان کا بھرپور ساتھ دیا تھا۔ لیکن آج صورتحال مختلف ہے۔ سکیورٹی فورسز اور عام لوگوں کے درمیان کوئی ہم آہنگی نہیں ہے۔ اگر کہیں انتہا پسندی کا کوئی واقعہ ہوتا ہے تو سیکورٹی فورسز عام لوگوں کو ہراساں کرتی ہیں۔‘

پونچھ کے ایک اور مقامی رہائشی محمد سید کا کہنا ہے کہ عام آبادی خود پریشان ہے کہ پیرپنجال میں کیا ہو رہا ہے۔ ان کا سوال ہے کہ یہاں کا امن کیوں خراب کیا جا رہا ہے؟

انتہا پسندی کے واقعات کے لیے پیر پنجال کا انتخاب کیوں کیا جا رہا ہے؟

ماہرین کا خیال ہے کہ جس طرح سے وادی کشمیر میں انتہا پسندی کے خلاف مہم چلائی گئی اور گذشتہ چار سالوں میں بڑی تعداد میں انتہا پسند مارے گئے اس سے انتہا پسندوں کے لیے وادی میں جینا مشکل ہو گیا ہے۔

صورتحال کو دیکھتے ہوئے شدت پسند ان پہاڑی علاقوں میں چلے گئے ہیں جہاں انھیں زیادہ چیلنجز کا سامنا نہیں ہے۔

یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اس علاقے کا انتخاب لائن آف کنٹرول کے قریب ہونے کی وجہ سے کیا گیا ہے۔

شیشپال وید کا کہنا ہے کہ کشمیر میں گذشتہ کچھ عرصے سے انتہا پسندی کا گراف نیچے آیا ہے اور شدت پسندوں کے لیے یہاں پناہ لینا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔

’اب جموں کے پیرپنجال علاقے کا انتخاب کیا گیا ہے۔ لائن آف کنٹرول کے قریب رہنے کا ایک فائدہ یہ ہے کہ یہاں وہ آسانی سے دراندازی کرنے کے قابل ہیں اور آسانی سے چھپ بھی سکتے ہیں۔

’اس علاقے میں پہاڑوں کے درمیان بہت سی غاریں ہیں، گھنے جنگلات ہیں اور یہ چاروں طرف سے گھرا ہوا ہے۔‘

ان کا یہ بھی ماننا ہے کہ انتہا پسند جموں میں سرگرم ہو کر لداخ خطے میں فوج کے دباؤ کو کم کرنے کی کوشش کرنا چاہتے ہیں۔

ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ پچھلے پندرہ سالوں میں جموں خطہ میں سکیورٹی فورسز کی تعداد کم ہوئی ہے جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انتہا پسندوں نے دوبارہ اپنے قدم جمانا شروع کر دیے ہیں۔

شیشپال وید پیرپنجال میں ہونے والے واقعات کو ’گوریلا جنگ‘ کے طور پر دیکھتے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں