حریت تنظیموں پر پابندی اور انعامات کا اعلان؛ بھارتی کشمیر میں حکومت کی نئی حکمتِ عملی کیا ہے؟

سرینگر + نئی دہلی (ڈیلی اردو/وی او اے) ‏بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں حالیہ دنوں میں بے امنی کے بڑھتے ہوئے واقعات کی روک تھام اور عسکریت پسندی پر قابو پانے کے لیے مودی حکومت نے ایک نئی حکمتِ عملی اختیار کی ہے۔

بھارتی حکومت نے کشمیر میں علیحدگی پسند تنظیموں پر پابندی لگانے کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ بھارت ایسی تنظیموں پر پاکستان نواز ہونے کے الزامات عائد کرتا رہا ہے۔

اس طرح کے تازہ ترین اقدام کے تحت وزارتِ داخلہ نے تحریکِ حریت جموں و کشمیر کو ایک غیر قانونی تنظیم قرار دے کر اس پر پانچ سال کے لیے پابندی عائد کر دی ہے۔

بھارت کے وزیرِ داخلہ امت شاہ نے اتوار کو سماجی رابطے کی ویب سائٹ ‘ایکس’ پر ڈالی گئی اپنی ایک پوسٹ میں کہا کہ تحریکِ حریت جموں و کشمیر کو غیر قانونی سرگرمیوں کے انسداد سے متعلق قانون یو اے پی اے کے تحت غیر قانونی تنظیم قرار دیا گیا ہے۔

اس فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے امت شاہ نے کہا کہ یہ تنظیم ایسی ممنوع سرگرمیوں میں ملوث ہے جن کا مقصد جموں و کشمیر کو بھارت سے الگ کرنا اور علاقے میں اسلامی حکومت قائم کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ “اس گروپ کو بھارت مخالف پروپیگنڈا پھیلانے اور جموں و کشمیر میں علیحدگی پسندی کو ایندھن فراہم کرنے کے لیے دہشت گردی کی سرگرمیاں جاری رکھنے میں ملوث پایا گیا ہے۔”

تحریکِ حریت جموں و کشمیر کی بنیاد سرکردہ آزادی پسند رہنما سید علی شاہ گیلانی نے 2003 میں ڈالی تھی۔

بھارتی وزیرِ داخلہ کے مطابق وزیرِ اعظم نریندر مودی کی دہشت گردی پر زیرو ٹالرنس پالیسی کے تحت کسی بھی فرد یا تنظیم کو اس کے بھارت مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہونے کی صورت میں فوری طور پر روک دیا جائے گا۔

تحریکِ حریت جموں و کشمیر پر پابندی لگانے کے اعلان سے تین دن پہلے جموں و کشمیر مسلم لیگ پر بھی اسی طرح کے الزامات لگاتے ہوئے بھارتی وزارتِ داخلہ نے پانچ سال کے لیے پابندی عائد کی تھی۔ جموں و کشمیر مسلم لیگ کی قیادت 52 سالہ علیحدگی پسند رہنما مسرت عالم بٹ کر رہے ہیں جو گزشتہ کئی برس سے مختلف الزامات کے تحت جیل میں قید ہیں۔

کشمیر کے پاکستان کے ساتھ الحاق کی حامی تنظیم جموں و کشمیر مسلم لیگ حریت کانفرنس کی ایک اہم اکائی ہے۔

کُل جماعتی حریت کانفرنس استصواب رائے کا مطالبہ کرنے والی کشمیری جماعتوں کا ایک بڑا اتحاد ہے جو اپنے قیام کے 10 سال بعد مارچ 1993 میں لیڈرشپ میں بعض امور پر اختلافات کی بنا پر تقسیم ہو گئی تھی۔

علیحدگی پسند تنظیموں پر پابندی کا سلسلہ

بھارتی حکومت نے گزشتہ پانچ برس کے دوراں استصوابِ رائے کا مطالبہ کرنے والی نصف درجن سے زائد کشمیری تنظیموں کو جن میں جماعتِ اسلامی جموں و کشمیر، جموں و کشمیر لیبریشن فرنٹ (جے کے ایل ایف) اور دخترانِ ملت بھی شامل ہیں یو اے پی اے کے تحت غیر قانونی قرار دے ان پر پانچ پانچ سال کے لیے پابندی عائد کردی ہے۔ ان سبھی تنظیموں کی قیادتیں اور اہم اراکین اسی قانون یا جموں و کشمیر پبلک سیفٹی ایکٹ (پی ایس اے)کے تحت بھارت کی مختلف جیلوں میں قید ہیں۔ چند ایک پر منی لانڈرنگ میں ملوث ہونے کا بھی الزام ہے۔

جموں و کشمیر میں 1978 سے نافذ سخت گیر قانون پی ایس اے کے تحت کسی بھی شخص کو اُس پر مقدمہ چلائے بغیر تین ماہ سے دو سال تک قید کیا جا سکتا ہے۔ تاہم اس طرح کی نظر بندی کو ایک عام عدالت میں چیلنج کیا جا سکتا ہے۔ نیز ایک سرکاری کمیٹی اس طرح کے معاملات کا وقفے وقفے سے جائزہ لیتی ہے۔

حزب المجاہدین، لشکرِ طیبہ، جیشِ محمد، البدر، العمر مجاہدین، جمعیت المجاہدین، تحریک المجاہدین اور تقریباً بیس دوسری عسکری تنظیموں کو بھی دہشت گرد تنظیمیں قرار دے کر ان کے نام کالعدم تنظیموں کی فہرست میں ڈال دیے گیے ہیں۔

عسکریت پسندوں کی معلومات پر انعام کا اعلان

اتوار کو جموں وکشمیر پولیس نے یہ اعلان کر دیا تھا کہ ایسے افراد کو جو اسے عسکریت پسندوں، ان کی حرکتوں اور بھارت مخالف سرگرمیوں کے بارے میں باخبر کریں گے ایک لاکھ سے ساڑھے 12 لاکھ روپے فی کس نقد انعامات سے نوازا جائے گا۔

پولیس نے ‘ایکس’ پر ڈالی گئی ایک پوسٹ میں کہا کہ بھارت۔پاکستان سرحد پر خفیہ طور پر کھودی گئی سرنگوں، ڈرون سرگرمیوں، منشیات کی اسمگلنگ، دہشت گردانہ سرگرمیوں اور دہشت گردوں کے بارے میں اطلاع دینے اور معلومات فراہم کرنے والے اشخاص کی شناخت خفیہ رکھی جائے گی۔

پولیس کی طرف سے جاری کردہ انعامی اسکیم کے تحت اُس شخص کو جو اسے ایسے افراد کے بارے میں اطلاع دے گا اسے دو لاکھ روپے کا نقد انعام دیا جائے گا۔

اسی طرح عسکریت پسندوں کی موجودگی کے بارے میں مصدقہ اطلاع فراہم کرنے والے شخص کو دو لاکھ سے ساڑھے بارہ لاکھ روپےکا انعام دیا جائے گا۔

مساجد، اسلامی مدرسوں، اسکولوں یا کالجوں میں لوگوں کو پولیس کے بقول دہشت گردوں کی صفوں میں شامل ہونے یا بندوق اٹھانے کے لیے ان کی حوصلہ افزائی کرنے، اس کی طرف مائل کرانے اور اس کے لیے اکسانے والوں کے بارے میں اطلاع دینے والے شخص کو ایک لاکھ روپے کا انعام دیا جائے گا۔

انعامی اسکیم کو دشمنی کیلئے استعمال کرنے کے خدشات

سرینگر کے ایک شہری عبد الرشید (نام تبدیل کیا گیا ہے) نے اس پر اپنا ردِ عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ اس سے لوگوں میں کشیدگی، اختلاف، عداوت اور دشمنی جیسے رجحانات پنپنے کا خدشہ ہے۔

اُن کے بقول اگر کوئی شخص کسی دوسرے شخص کے خلاف کسی وجہ سے حاسدانہ جذبات رکھتا ہو تو وہ اُسے پھنسانے کے لیے پولیس کو اس کے بارے میں غلط اطلاع فراہم کر سکتا ہے یا پھر محض انعام کے لالچ میں من گھڑت کہانی گھڑ سکتا ہے۔ یہ صورتِ حال خانہ جنگی پیدا کرنے کا موجب بھی بن سکتی ہے۔”

لیکن ایک پولیس عہدیدار نے اس خدشے کو فقط ایک مفروضہ اور بے بنیاد ڈر قرار دیتے ہوئے کہا کہ پولیس کو دی جانے والی ہر اطلاع کی پہلے تحقیقات کی جائیں گی اور اس کے درست ثابت ہونے کی صورت ہی میں قانونی کارروائی کی جائے گی اور پولیس کو باخبر کرنے والے کو انعام سے نوازا جائے گا۔

پولیس نے اپنی انعامی پالیسی کے اس اعلان کو جموں و کشمیر میں اس کے بقول دہشت گردہ کا قلع قمع کرنے، ملک دشمن سرگرمیوں کا توڑ کرنے اور سرحد پار سے بھیجی گئی منشیات کے جموں و کشمیر اور بھارتی پنجاب میں بڑھتے ہوئے استعمال کو روکنے کے لیے اٹھایا گا ایک جائز قدم قرار دیا ہے۔

نئی دہلی میں برسرِ اقتدار بھارتیہ جنتا پارٹی نے بھارتی وزارتِ داخلہ اور جموں و کشمیر پولیس کی طرف سے اٹھائے جانے والے ان اقدامات کا خیر مقدم کیا ہے اور کہا ہے اس کے بقول یہ ریاست میں دہشت گردی اور علیحدگی پسندی کی تابوت میں آخری کیل ثابت ہو گی۔ البتہ بھارت نواز سیاسی جماعتوں نے جو مقامی سیاسی حلقوں میں مین اسٹریم پارٹیز کہلاتی ہیں یا استصوابِ رائے کا مطالبہ کرنے والی اور عسکریت تنظیموں نے تا حال کوئی ردِ عمل ظاہر نہیں کیا ہے۔

وزیر داخلہ امت شاہ نے سرحدی اضلاع پونچھ اور راجوری میں عسکریت پسندوں کے بڑھتے ہوئے حملوں کے پس منظر میں جموں و کشمیر کی حفاظتی صورتِ حال پر غور و خوض کرنے کے لیے منگل کو نئی دہلی میں ایک خصوصی میٹنگ بلائی ہے۔

نئی دہلی میں حکومتی ذرائع نے بتایا کہ اس اجلاس میں جس میں جموں و کشمیر کے سربراہِ انتظامیہ لیفٹننٹ گورنر منوج سنہا بھی شرکت کریں گے علاقے میں امن و امان کی صورتِ حال اور سیکورٹی گرڈ اور زیرو ٹرر پلان جیسے اہم امور زیرِ غور لائے جائیں گے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں