بھارت کا حافظ سعید کی حوالگی کا مطالبہ اور پاکستان کا انکار کسی نئے تنازعے کا پیش خیمہ ہے؟

اسلام آباد (ڈیلی اردو/بی بی سی) انڈیا نے گذشتہ ہفتے پاکستان سے جماعت الدعوة کے سربراہ حافظ محمد سعید کی حوالگی کا مطالبہ کیا ہے، جسے پاکستان نے مسترد کر دیا ہے۔

انڈیا نے حافظ سعید کی حوالگی کا مطالبہ ان کے سنہ 2008 میں ممبئی حملوں اور انڈیا میں دہشتگردی کی کارروائیوں میں مبینہ طور پر ملوث ہونے پر کیا ہے۔

انڈیا کے مطابق حافظ سعید کی حوالگی کا مطالبہ اس لیے کیا گیا تاکہ انڈیا میں ان کے خلاف عدالتی کارروائی چلائی جا سکے۔

انڈیا کے وزارتِ خارجہ کے ترجمان ارندم باگچی نے جمعے کو اپنی پریس بریفنگ کے دوران کہا کہ حافظ سعید کی حوالگی کے لیے اسلام آباد میں واقع انڈین ہائی کمیشن کے توسط سے درخواست اسلام آباد کو ارسال کی گئی ہے۔

پاکستان کے دفترِ خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ نے انڈیا کی اس مطالبے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’پاکستان کو انڈین اتھارٹی کی جانب سے نام نہاد منی لانڈرنگ کیس میں حافظ سعید کی حوالگی کی درخواست موصول ہوئی ہے لیکن دونوں ملکوں کے درمیان ملزمان کی حوالگی کا کوئی معاہدہ ہی موجود نہیں۔‘

انڈیا کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان کے مطابق حافظ سعید منی لانڈرنگ سمیت انڈیا میں متعدد مقدمات میں مطلوب ہیں اور اقوامِ متحدہ نے بھی انھیں دہشت گرد قرار دیا ہے۔

یاد رہے کہ حافظ سعید اس وقت جیل میں مختلف مقدمات میں سزا بھگت رہے ہیں جن میں دہشت گردی سمیت دہشت گردوں کی مالی معاونت کے مقدمات شامل ہیں۔

انڈیا حافظ سعید پر 2008 کے ممبئی حملوں کی منصوبہ بندی کرنے کا الزام لگاتا ہے۔ ان حملوں میں 161 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ حافظ سعید کئی برسوں سے انڈیا کو مطلوب ہیں۔

یہی نہیں بلکہ اقوام متحدہ اور امریکہ دونوں نے انھیں عالمی شدت پسندوں کی فہرست میں شامل کر رکھا ہے جبکہ امریکہ نے ان کے سر کی قیمت 10 ملین ڈالر مقرر کر رکھی ہے۔ اس سے پہلے انھیں ان کے گھر میں نظر بند اور واچ لسٹ پر بھی ڈالا جا چکا ہے۔

انڈیا اس وقت حافظ سعید کی حوالگی کا مطالبہ کیوں کر رہا ہے اور کیا پاکستان اور انڈیا ایک بار پھر کسی نئے تنازع کا حصہ بننے جا رہے ہیں۔ اس متعلق بی بی سی اردو نے دونوں ممالک کے ماہرین سے بات کر کے اس معاملے کو سمجھنے کی کوشش کی ہے۔

’یہ انڈیا کا دیرینہ مطالبہ ہے‘

پاکستان میں انڈیا کے سابق ہائی کمشنر شرت سبھروال نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’حافظ سعید کے معاملے پر ہماری پوزیشن بہت واضح رہی ہے کہ ان کا دہشتگردی پھیلانے میں اہم کردار رہا ہے۔‘

ان کے مطابق حافظ سعید انڈیا کو واضح انداز میں دھمکاتے رہے ہیں اور یہ سب پاکستانی میڈیا میں بھی شائع ہوتا رہا ہے۔‘

شرت سبھروال کے مطابق ’سنہ 2008 میں ممبئی حملے کے بعد ہم نے پاکستان کو شواہد بھی دیے تھے۔ ہماری پوزیشن بہت واضح ہے اور حافظ سعید کو پاکستانی حکام نے نقص امن کے تحت گرفتار بھی رکھا۔‘

ان کی رائے میں یہ معاملہ بہت دیر سے چل رہا ہے اور انڈیا کی ہر حکومت نے اس پر بات کی ہے اور پاکستان سے حافظ سعید کی حوالگی کی درخواست کی ہے۔

سابق انڈین سفارت کار کا کہنا ہے کہ اس معاملے پر سکیورٹی کونسل میں بھی بات ہوئی ہے۔ ان کے مطابق ’حافظ سعید اقوام متحدہ کی طرف سے جاری کردہ دہشتگردوں کی فہرست میں بھی شامل ہیں۔‘

پاکستانی دفتر خارجہ کی ترجمان کے بیان پر شرت سبھروال نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’سارک فریم ورک میں اس طرح کے دہشتگردوں اور مجرمان کی حوالگی سے متعلق معاہدہ بھی موجود ہے‘ تاہم ان کے مطابق ’جب ارادہ ہو تو پھر معاہدے کے بغیر بھی اس طرح کے معاملات میں تعاون کیا جا سکتا ہے۔‘

ڈاکٹر رشید احمد خان پاکستان کی متعدد یونیورسٹیوں میں پڑھا رہے ہیں۔ وہ جنوبی ایشیا کی سیاست پر مہارت رکھتے ہیں۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ انڈیا کو کینیڈا میں ایک سکھ رہنما کے قتل کے بعد دنیا بھر میں جو ہزیمت اٹھانا پڑی، اب حافظ سعید کی حوالگی کا مطالبہ اس معاملے سے توجہ ہٹانے کی کوشش ہو سکتا ہے۔

ڈاکٹر رشید انڈیا کے سابق ہائی کمشنر شرت سبھروال کی اس بات سے متفق ہیں کہ انڈیا اس سے قبل بھی حافظ سعید اور ان کے ساتھیوں کی حوالگی کا مطالبہ کرتا رہا ہے۔

حافظ سعید کی حوالگی کے مطالبے کا مقصد کیا ہے؟

اسلام آباد میں سابق انڈین ہائی کمشنر شرت سبھروال کے مطابق انڈیا میں یہ تصور پایا جاتا ہے کہ ممبئی حملوں کے ذمہ داران کو انصاف کے کٹہرے میں نہیں لایا جا سکا۔

شرت سبھروال کے مطابق ’ہمارے ہاں ماننا ہے کہ جو کارروائی ہونی چاہیے تھی وہ نہیں ہوئی۔ ٹرائل بھی تقریباً بے نتیجہ ہی ختم ہو کر رہ گیا ہے۔ حافظ سعید سے متعلق کچھ نہیں ہوا ہے۔‘

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ’ایف اے ٹی ایف (فیٹف) کی کارروائی سے بھی یہ بات ثابت ہو گئی کہ پاکستان سے دہشتگردوں کو پیسہ جا رہا تھا۔‘

نیو دہلی میں مقیم کالم نگار پراشنت سیکسینا دفاعی امور پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ یہ بات تو انڈیا کو بھی معلوم ہے کہ ’پاکستان کبھی حافظ سعید کو حوالے نہیں کرے گا۔‘

تاہم ان کے مطابق اس وقت ایف اے ٹی ایف کا دوبارہ اجلاس ہونے جا رہا ہے اور اس اجلاس سے قبل منی لانڈرنگ کے چکر میں انڈیا میں بھی بہت سے چھاپے پڑ رہے ہیں اور انڈیا اپنی کارکردگی رپورٹ بہتر بنا رہا ہے۔

ان کے مطابق ’ابھی انڈیا نے ایف اے ٹی ایف میں جا کر یہ مؤقف اختیار کرنا ہے کہ حافظ سعید کا معاملہ ٹھنڈا نہیں پڑا، انھیں انڈیا کے حوالے کرنا ہو گا۔‘

خیال رہے کہ 23 جون 2021 کو لاہور کے علاقے جوہر ٹاؤن میں حافظ سعید کے مکان کے نزدیک بم دھماکہ ہوا تھا جس میں ایک پولیس اہلکار سمیت تین افراد ہلاک اور کم از کم 24 افراد زخمی ہوئے تھے تاہم جیل ریکارڈ کے مطابق حافظ سعید اس وقت کوٹ لکھپت جیل میں قید تھے۔

حافظ سعید کو سنہ 2020 میں لاہور کی انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے تین مختلف مقدمات میں گیارہ برس قید کی سزا سنائی تھی۔

ڈاکٹر رشید کے مطابق ’اس وقت پاکستان کے جو اندرونی حالات ہیں، ان میں انڈیا یہ سمجھتا ہے کہ اب لوگوں کی توجہ ادھر ادھر کرنے کے لیے یہ کیا جائے تا کہ کشمیر میں لائن آف کنٹرول پر گڑ بڑ نہ ہو۔‘

ان کے مطابق ’پاکستان کی اندرونی سیاست میں یہ پہلو اہم ہے کہ انڈیا کے خلاف بیانیہ بڑھایا جائے۔

ڈاکٹر رشید کے مطابق ’آرمی چیف کا اپنا منصب سنبھالتے ہی ایل او سی کا دورہ، کینیڈا میں سکھ قتل پر پاکستان کا ردعمل اس کی واضح مثالیں ہیں۔‘

ڈاکٹر رشید کی رائے میں ’انڈیا کو پاکستان کے اس ردعمل سے جو ہزیمت اٹھانا پڑی ہے تو شاید انڈیا اب پاکستان کو اس کا جواب دے رہا ہے۔‘

ان کے مطابق انڈیا اب کینیڈا والے سکھ رہنما کے قتل سے توجہ ہٹانے اور اپنی جان چھڑانے کے لیے بھی یہ سب کر رہا ہے۔‘

مئی کےعام انتخابات سے قبل انڈیا سیاسی فائدے کیلئے یہ کر رہا ہے؟

واضح رہے کہ انڈیا میں اس برس مئی میں عام انتخابات ہونے جا رہے ہیں لیکن پراشنت کے مطابق انڈیا کے انتخابات میں پاکستان اب زیر بحث ہی نہیں۔

ان کی رائے میں ’اب یہاں لوگ فلاحی سکیموں میں دلچسپی لے رہے ہیں۔ اب لوگوں کا اچھی طرح خبر ہے کہ مودی پاکستان کی خبر اچھی طرح سے لے سکتے ہیں۔‘

ان کے مطابق دلی میں عام آدمی کا بیانیہ پاکستان نہیں۔ ان کی رائے میں ’سرکار یہ مدعے جان بوجھ کر اٹھاتی ہے تاکہ لوگوں کو اور دنیا کو بتایا جا سکے وہ بہت سرگرم ہے اور اب دنیا یہ نہ کہہ دے کہ انڈیا خود ہی ممبئی حملوں کو بھول گیا ہے تو پھر ہم کیا کریں۔‘

تھنک ٹینک دی ولسن سینٹر کے جنوبی ایشیا انسٹیٹیوٹ کے ڈائریکٹر مائیکل کگلمین نے بی بی سی کو بتایا کہ یہ انڈیا کا کوئی نیا مطالبہ نہیں اور اس وجہ سے کسی بھی ملک کو حیران نہیں ہونا چاہیے۔

تاہم ان کی رائے میں حافظ سعید کی حوالگی سے متعلق مطالبے کی ’ٹائمنگ‘ اہمیت کی حامل ہے۔ یہ مطالبہ ایک ایسے وقت پر دہرایا جا رہا ہے جب انڈیا کے عام انتخابات قریب آ رہے ہیں۔

ان کی رائے میں ’یہ مودی اور بے جے پی کے لیے ایک موقع ہے کہ وہ پاکستان مخالف جذبات کو ابھاریں، جس کا ان کی جماعت کو ماضی میں بھی خاطر خواہ فائدہ ہوا ہے۔‘

وہ پراشنت کی اس بات سے متفق ہیں کہ پاکستان یقیناً حافظ سعید کو انڈیا کے حوالے نہیں کرے گا اور انڈیا اسے محض ایک موقع کے طور استعمال کرے گی کہ کیسے پاکستان انڈیا مخالف دہشتگردوں کی پشت پناہی اور مدد جاری رکھے ہوئے ہے۔

ایک اور سوال کے جواب میں مائیکل کگلمین کا کہنا تھا کہ وہ یہ نہیں سمجھتے کہ اس مطالبے سے پاکستان اور انڈیا میں کوئی نیا تنازع کھڑا ہو جائے گا۔ ان کے خیال میں اس وقت پاکستان میں پہلے سے ہی بہت سارے بحران ہیں اور ایسے میں پاکستان بھی انڈیا سے کسی قسم کی نئی کشیدگی کا خطرہ مول نہیں لے سکتا۔ وہ سمجھتے ہیں کہ انڈیا کے اس مطالبے سے تناؤ بڑھنے کے بجائے کم ہو گا۔

دفاعی امور کے ماہر ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل طلعت مسعود بھی یہ سمجھتے ہیں کہ ’انڈیا پاکستان کو دباؤ میں رکھنا چاہتا ہے اور مودی کی حکومت اس طرح کے مطالبات سے روایتی انداز میں سیاسی فائدہ اٹھانا چاہتی ہے۔‘

ان کے مطابق اس دفعہ انڈیا کو عالمی سطح پر اس میں کوئی خاص کامیابی حاصل نہیں ہو گی۔ طلعت مسعود کی رائے میں امریکہ انڈیا کے اس مطالبے کی حمایت نہیں کرے گا کیونکہ اگر پاکستان پر دباؤ بڑھا تو پھر اس کا مزید جھکاؤ چین کی طرف ہو گا جو امریکہ نہیں چاہتا۔

ڈاکٹر رشید کے مطابق ’انڈیا میں سیاسی جماعتوں کے اتحاد (انڈیا) سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ مودی کو ہرایا نہیں جا سکتا مگر اس کے باوجود یہ کہا جاتا ہے کہ مودی کو بہت زیادہ پاکستان کارڈ کھیلنے کی ضرورت ہے۔‘

ان کے مطابق اس وقت انڈیا میں ایک یہ تنقید بھی پائی جاتی ہے کہ ’مودی پاکستان پر بہت نرمی کیے ہوئے ہیں، اب جہاں مودی پر اندرونی دباؤ بھی ہے تو وہیں انھوں نے حزب اختلاف کو بھی قابو میں رکھنا ہے۔‘

پراشنت سیکسینا کا کہنا ہے کہ انڈیا کے سامنے دو اہداف اہم ہیں ایک تو فلاحی منصوبوں کی تکمیل اور دوسرا دفاعی طاقت میں اضافہ۔ ان کے مطابق انڈیا کی نیوی اس وقت چین کی نیوی سے بہت پیچھے ہے جبکہ انڈیا کو چین سے مستقل خطرہ لاحق رہتا ہے۔

ان کے خیال میں جہاں تک پاکستان کی بات ہے تو یہاں یہی بات سمجھ نہیں آ رہی کہ وہاں کس سے بات کرنی ہے اور اقتدار کس کے پاس ہے۔ ان کی رائے میں پاکستان کے اپنے اندرونی حالات اچھے نہیں اور وہ انڈیا کے لیے اتنا بڑا خطرہ نہیں۔

تاہم ان کے مطابق ایک تشویش یہ بھی پائی جاتی ہے کہ پاکستان کی اندرونی صورتحال بہت خلفشار کی طرف جا رہی ہے اور کوئی نئی حکومت اقتدار میں آئے تو پھر کوئی بات چیت کا سلسلہ آگے بڑھایا جائے۔ ان کے مطابق چین کے ساتھ کسی بھی ممکنہ تنازع کی صورت میں پاکستان کو نیوٹرل رکھنا بھی اہم سمجھا جا رہا ہے۔

حافظ سعید سے متعلق ان کی رائے یہ ہے کہ ’وہ کھانے میں نمک جتنا انڈیا کی خارجہ پالیسی کا حصہ ہیں۔‘

اپنا تبصرہ بھیجیں