لبنان میں اسرائیلی ڈرون حملہ، حماس کا نائب رہنما صالح العروری ساتھیوں سمیت ہلاک

تل ابیب + بیروت + تہران (ڈیلی اردو/رائٹرز/ڈی پی اے) حماس کے نائب سیاسی رہنما صالح العروری جنوبی بیروت میں ایک ڈرون حملے میں چھ دیگر افراد کے ساتھ ہلاک ہو گئے۔ ایک اسرائیلی ترجمان کے مطابق العروری ‘حماس کی قیادت کے خلاف سرجیکل اسٹرائیک‘ میں مارے گئے۔

منگل کے روز لبنان کے دارالحکومت بیروت کے جنوبی مضافات میں ایک ڈرون حملے میں حماس کے ایک سینیئر رہنما صالح العروری ہلاک ہو گئے۔ ان کے ساتھ اس حملے میں چھ دیگر افراد بھی مارے گئے۔

اسرائیل پر سات اکتوبر کے حماس کے دہشت گردانہ حملے کے بعد سے جو جنگ جاری ہے، اس کے بعد سے صالح العروری، اب تک مارے جانے والے حماس کے سب سے سینیئر رہنما ہیں۔

ستاون سالہ صالح العروری حماس کے سیاسی بیورو کے نائب سربراہ اور گروپ کے مسلح بازو قسام بریگیڈ کے بانیوں میں سے بھی ایک تھے۔ اسرائیل میں 15 برس جیل میں قید رہنے کے بعد سے وہ لبنان میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہے تھے۔

حالیہ ہفتوں کے دوران العروری حماس کے ترجمان کا کردار بھی ادا کرتے رہے تھے۔ سات اکتوبر کو حماس اور اسرائیل کے مابین جنگ شروع ہونے سے پہلے اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے انہیں جان سے مارنے کی دھمکی بھی دی تھی۔

بیروت میں ڈرون حملہ

لبنان کی سرکاری نیوز ایجنسی کا کہنا ہے کہ صالح العروری جنوبی بیروت کے مضافاتی علاقے دحیہ میں حماس کے دفتر پر اسرائیل کی جانب سے کیے گئے ایک ڈرون حملے میں مارے گئے۔

اس دوران لبنان کے وزیر اعظم نے اسرائیل پر الزام لگایا ہے کہ وہ لبنان کو بھی اس تصادم میں گھسیٹنے کی کوشش کر رہا ہے۔

ایک عینی شاہد نے خبر رساں ادارے رائٹرز کو بتایا کہ اس نے فائر فائٹرز اور طبی امدادی عملے کو ایک اونچی عمارت کے آس پاس جمع ہوتے دیکھا، جس کی تیسری منزل پر بیرونی دیوار میں ایک بڑا سوراخ ہو چکا تھا۔

حماس نے اس ہلاکت کی مذمت کی ہے جبکہ اس کے اتحادی ایران نواز لبنانی گروپ حزب اللہ نے اسے لبنان کی خود مختاری پر حملہ قرار دیا ہے۔

اسرائیل کا بیان

اسرائیل کا اصرار ہے کہ بیروت میں حماس کے نائب رہنما کا قتل لبنان پر حملہ نہیں ہے، کیونکہ العروری کے دشمنوں نے ان کے لیے موت کی ‘سزا‘ سے پہلے ہی خبردار کر دیا تھا۔ ایک اسرائیلی ترجمان نے کہا کہ صالح العروری کی موت ”حماس کی قیادت کے خلاف ایک سرجیکل اسٹرائیک‘‘ میں ہوئی۔

اسرائیل کی طرف سے تاہم واضح طور پر اس بات کا نہ تو اعتراف کیا گیا اور نہ ہی انکار کہ العروری ایک اسرائیلی حملے میں مارے گئے۔ اسرائیلی فوجی ترجمان ریئر ایڈمرل ڈینیل ہگاری نے کہا کہ اسرائیلی افواج پوری تیاری کی حالت میں ہیں اور کسی بھی صورت حال کے لیے تیار ہیں۔

ان سے جب ایک رپورٹر نے العروری کے قتل کی اطلاعات کے بارے میں پوچھا، تو ان کا کہنا تھا، ”آج رات کہنے کے لیے سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہم حماس سے لڑنے پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں۔‘‘

انہوں نے مزید کہا، ”جس نے بھی یہ کیا ہے، یہ واضح ہونا چاہیے کہ یہ لبنانی ریاست پر حملہ نہیں ہے۔ یہ دہشت گرد تنظیم حزب اللہ پر بھی حملہ نہیں تھا۔‘‘

انہوں نے کہا، ”جس نے بھی یہ کیا، یہ حماس کی قیادت کے خلاف ایک سرجیکل اسٹرائیک تھی۔ جس نے بھی یہ کیا، وہ حماس پر گرفت کا حامل ہے۔ یہ تو بہت واضح ہے۔‘‘

حماس کے سیاسی شعبے کے سربراہ اسماعیل ہنیہ نے اس حملے کو ”بزدلانہ، دہشت گردی کی کارروائی، لبنان کی خود مختاری کی خلاف ورزی اور جارحیت‘‘ قرار دیا۔

حزب اللہ کا کہنا ہے کہ صالح العروری کی موت ”لبنان، اس کی عوام، اور لبنان کی سلامتی و خود مختاری پر ایک سنگین حملہ‘‘ ہے۔

ایران اور لبنان کا رد عمل

ایران کا کہنا ہے کہ العروری کا قتل ”بلاشبہ مزاحمت کی ایک نئی لہر کو بھڑکائے گا۔‘‘

ادھر لبنان کے وزیر خارجہ عبداللہ بوحبیب کا کہنا ہے کہ بیروت حکومت حزب اللہ سے بات کر رہی ہے تاکہ ”ان (حزب اللہ) پر یہ دباؤ ڈال سکے کہ وہ خود اس کا جواب نہ دیں۔‘‘ ساتھ ہی انہوں نے کہا، ”ہم انہیں ایسا کرنے کا حکم نہیں دیتے، بلکہ ہم اس سلسلے میں ان سے بات چیت کرتے ہیں۔‘‘

لبنانی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ آئندہ 24 گھنٹوں میں یہ بات واضح ہو جائے گی کہ حزب اللہ کی طرف سے کیا جواب دیا جاتا ہے۔ بوحبیب نے کہا، ”ہمیں بہت تشویش ہے، لبنانی نہیں چاہتے کہ انہیں اس میں گھسیٹا جائے، حتیٰ کہ حزب اللہ بھی نہیں چاہتی کہ اسے اس علاقائی جنگ میں گھسیٹا جائے۔‘‘

اپنا تبصرہ بھیجیں